Workaholism

Workaholism is the article written by Dr. Sadaqat Ali itself

!پنگا نہیں لینا سر جی

قسط1

ڈاکٹر صداقت علی

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ دوسروں کے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں تو پھر یہ تحریر آپ کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ ویسے تو یہ ایک ڈاکٹر کی کہانی ہے لیکن اس کا اطلاق روزمرہ زندگی کے دیگر کرداروں، خاص طور پر بزنس مین، مینجرز، والدین اور اساتذہ پر بھی ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ میری پیشہ ورانہ زندگی ناکامی سے دوچار ہو چکی تھی۔ دو قابل انسانوں کے مشوروں سے آج یہ پھر زبردست کامیابی کی طرف رواں دواں ہو چکی ہے۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ یہ اسی کی تفصیل ہے۔ یہاں پر یہ کہانی بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میں عقل اور دانائی کی وہ باتیں آپ تک منتقل کر سکوں۔ میں امید رکھتا ہوں کہ میری طرح یہ آپ کے بھی کام آئیں گی۔ یہ کہانی کوئی 44 برس قبل اس وقت شروع ہوئی جب ایک دوپہر کے کھانے پر میری ملاقات اپنے دوست میاں عزیز سے ہوئی۔ میں دفتر لوٹا، اپنے ڈیسک پر بیٹھا، اپنے سر کو حیرت سے جھٹکادیا اور سوچنے لگا کہ یہ ابھی ابھی کیا ہوا؟ کھانے کے دوران میں اپنے کام کے بارے میں کھل کر بے چینیوں کا اظہارکرتا رہا تھا۔ میاں عزیز مجھے بغور سنتے رہے اور پھر جب انہوں نے مجھے میرے مسائل کی وجہ بتائی تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ اس مسئلے کا حل بھی روز روشن کی طرح عیاں تھا۔ مجھے جس چیز نے سب سے زیادہ حیران کیا وہ یہ تھی کہ مسئلہ میرا اپنا ہی پیدا کردہ تھا۔ شاید اسی وجہ سے میں اسے کسی دوسرے کی مدد کے بغیر سمجھ نہ سکا۔ جب میری آنکھیں کھلیں تو مجھے احساس ہوا کہ میں اس مسئلے میں تنہا نہیں، میرے جاننے والے بہت سے دوسرے ” کامیاب“ لوگوں کو بھی یہی مسئلہ درپیش تھا۔ میں اپنے دفتر میں تنہا بیٹھا خود بخود ہنس دیا۔ ’’پنگا‘‘ خودبخود میرے منہ سے نکلا ’’شاید مجھے کبھی شک نہ پڑتا کہ میرا اصل مسئلہ ”پنگےبازی“ کہلاتا ہے۔ مجھے یاد ہے، ایک طویل عرصے بعد میری نظر اپنی میز پر سجی بیوی بچوں کی تصویر پر پڑی تومیںدفعتاً مسکرادیا۔ میں ان کے ساتھ بھرپوروقت گزارنے کی راہ دیکھ رہا تھا۔

اچانک مجھے ہولی فیملی ہسپتال میں اپنا اولین انتظامی عہدہ یاد آگیا۔ میں بطور رجسٹرار تعینات ہوا تھا۔ یہ عہدہ ’’پنگا بازی” کا بھید کھلنے سے قریباً ایک سال پہلے ملا تھا۔ شروع میں معاملات اچھی طرح چلتے رہے۔ ابتداء میں میں اپنے نئے کام کے بارے میں بے انتہا پرجوش تھا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میرے رویے ماتحتوں پر بھی مثبت اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ جوش و جذبہ اور نتائج جو میرے رجسٹرار بننے سے پہلے زوال پذیر تھے، اب عروج پر تھے؛ تاہم ابتدائی ہلے کے بعد میرے شعبے کی کارکردگی شروع میں آہستہ آہستہ لیکن بعد میں تیزی سے کم ہوتی چلی گئی۔ کارکردگی کے ساتھ ساتھ جوش و جذبہ بھی روبہ زوال تھا، گھنٹوں سخت محنت کے باوجود مجھے اپنے شعبے میں ناکامی کا سامنا تھا۔ میں جھنجھلاہٹ اور بےچینی کا شکار تھا، بظاہر ایسا دکھائی دیتا تھا کہ میں جتنی زیادہ محنت کرتا ہوں میری کارکردگی اتنی ہی کم ہوتی چلی جارہی ہے اور یہی حال میرے شعبے کا تھا۔

میں ہر روز اپنی ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد بھی کام کرتا رہتا، حتٰی کہ ہفتہ اور اتوارکے روز بھی، لیکن اس کے باوجود کام تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا، ہر لمحہ کام کا دبائو بڑھ رہا تھا، مجھے خوف محسوس ہونے لگا کہ ذہنی دباؤ کی وجہ سے السر کی شکایت نہ پیدا ہو جائے یا پھر میں اعصابی طور پر مفلوج ہو کر نہ رہ جائوں۔مجھے یہ بھی محسوس ہونے لگا تھا کہ یہ سب کچھ میرے اور اہل خانہ کے درمیان دوریاں پیدا کر رہا ہے، چونکہ میں گھر میں کبھی کبھار ہی ہوتا تھا اس لئے اہل خانہ کو گھریلو مسائل خود ہی حل کرنا پڑتے اور پھر جب کبھی میں گھر پر ہوتا توعموماً تھکا ہوا ہوتا یا پھر آدھی رات کو بھی میرے اعصاب پر کام سوار ہوتا۔ میرے تینوں بھائی بھی مایوسی کا شکار تھے کیونکہ میرے پاس ان کے ساتھ بات کرنے کا وقت نہیں تھا، آخر میں بھی کیا کرتا؟ میرے پاس کوئی متبادل راستہ بھی نہ تھا، آخرکار مجھے کام بھی تو کرنا تھا- ابتداء میں تو میرے باس ڈاکٹر جمشیر طلاتی مجھ پر اتنی نظر نہ رکھتے تھے لیکن پھر ان کے رویے میں بھی ایک تبدیلی نظر آنے لگی، انہوں نے میری کارکردگی کے بارے میں زیادہ رپورٹیں مانگنا شروع کر دیں، ظاہر ہے انہوں نے معاملات پر کڑی نگاہ رکھنا شروع کر دی تھی۔

بظاہر ڈاکٹر جمشیر طلاتی اس بات پر اطمینان کا اظہار کرتے تھے کہ میں مدد کے لئے ہر وقت ان کے دروازے پر دستک نہیں دیتا لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ میرے شعبے کی کارکردگی کے بارے میں کچھ زیادہ تشویش کا اظہار کرنے لگے کہ میں بہت زیادہ مخبوط الحواس اور مصروف رہنے لگا تھا۔ میں یہ بھی جا نتا تھا کہ زیادہ عرصہ حالات کو جوں کا توں نہیں چھوڑ سکتا اس لئے میں ان سے کھل کر بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے انہیں بتایا ’’یہ بات میرے علم میں ہے کہ کچھ عرصے سے معاملات صحیح نہج پر نہیں چل رہے تاہم میں حالات کو بہتر بنانے کے لئے کوئی جامع حکمت عملی تلاش نہیں کر سکا”، مجھے یاد ہے کہ میں نے انہیں کہا تھا،“ مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ میں دو افراد کا کام کر رہا ہوں“۔ مجھے ان کا جواب آج بھی یاد ہے۔ انہوں نے کہا تھا، مجھے بتائو کہ وہ دوسرا فرد کون ہے، مجھے اسے ملازمت سے فارغ کرنا ہے ۔۔۔۔۔میں ضرورت سے زیادہ عملہ برداشت نہیں کر سکتا۔

پھر انہوں نے مجھے کہا کہ غالباً مجھے کام کے لئے اپنے عملےسے زیادہ رجوع کرنا چاہیے۔ میرا جواب یہ تھا کہ میرا عملہ اضافی ذمہ داریاں اٹھانے کے لئے تیار ہی نہیں ہے۔ ایک مرتبہ پھر انہوں نے ایسا جواب دیا جو میں کبھی فراموش نہ کر پائوں گا، انہوں نے کہا ’’پھر یہ تمہارا فرض ہے کہ تم انہیں اس کے لئے تیار کرو۔ یہ صورت حال مجھے بہت زیادہ اعصابی تنائو میں مبتلا کر رہی ہے، تمہیں پتہ ہے کہ ایک مرتبہ میرے دادا جان نے کہا تھا :‘‘ اگر باس کو ٹینشن ہو تو اس کے ساتھ کام کرنا دشوار ہوتا ہے، خاص طور پر جب آپ ہی باس کو ٹینشن اعصابی میں مبتلاکر رہے ہوں۔

!پنگا نہیں لینا سر جی

قسط2

ڈاکٹر صداقت علی

بعد میں، میں نے باس کے ساتھ ہونے والی گفتگو پر کافی غور کیا ’’ٹینشن کا شکار باس!‘‘ یہ الفاظ میرے پردہ سماعت کے ساتھ ٹکراتے رہے۔ مجھے احساس ہونے لگا کہ وہ مجھ سے توقع کر رہے تھے کہ میں صورت حال کو خود ہی سنبھالوں، اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ وہ خود بھی اس وقت ایک انتہائی “اہم” پنگے پر مصروف تھے۔ اسی وجہ سے میں نے میاں عبدالعزیز سے مدد کے لئے رابطہ کیا۔ وہ ایک زبردست کمپنی چلارہے تھے اور میرے پرانے خاندانی دوست تھے، انہیں ہر کوئی گرو جی کہہ کر بلاتا تھا کیونکہ وہ اپنے ماتحتوں سے بظاہر انتہائی قلیل وقت میں اور بغیر کسی مشقت کے بہترین نتائج حاصل کر لیا کرتے تھے۔ جب ہم دوپہر کے کھانے پر ملے تو ضرور میرے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہوں گی۔ اسی لئے انہوں نے جو پہلی بات مجھ سے کی وہ یہ تھی ہوں! تو پھر ہسپتال کا انتظام چلانا اتنا آسان نہیں جتنا کہ تم نے سمجھا تھا۔

“اس جملے سے صورت حال کا مکمل احاطہ نہیں ہوتا، میں نے جواب دیا اور انتہائی غمگین لہجے میں کہا ’’وہ بھی کیا دن تھے جب میں ابھی رجسٹرار نہیں بنا تھا! میں میڈیکل آفیسر تھا، تب حالات بہت اچھے تھے کیونکہ میری کارکردگی کا انحصار میری اپنی کاوشوں پر تھا، ان دنوں میں جتنی زیادہ محنت کرتا پیداوار اتنا ہی بہتر ہوتی، یہ کلیہ اب بظاہر ترقی معکوس کا سبب بن رہا ہے۔

میں اپنے مسئلے کو تفصیل سے بیان کرتا رہا، میاں عبدالعزیز خاموشی سے سنتے رہے، کبھی کبھار وہ ایک آدھ سوال کر کے خاموشی کو توڑ دیتے جیسے جیسے ہماری گفتگو آگے بڑھتی گئی ان کے سوالات خاص اور تیکھے ہوتے چلے گئے۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہسپتال میں ہر وقت کام کے سیلاب کا ریلا میری طرف بڑھ رہا ہوتا ہے، صورت حال پہلے خوف ناک ہوئی پھر دہشتناک ہوتی ہر لمحے بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ بعض اوقات ایسے دکھائی دیتا ہے کہ میں کاغذات کو تاش کے پتوں کی طرح پھینٹنے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہا اور اس دوران کوئی کام ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی پیش رفت میں نے اس صورت حال کو مہارت کے ہاتھوں مقصد کی موت قرار دیا۔ یہ الٹی گنگا بہہ رہی تھی یعنی میں کام تو زیادہ کر رہا تھا لیکن حاصل کچھ نہیں کر پا رہا تھا۔

ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہسپتال میں ہر کسی کو مجھ سے ہی کام ہے لیکن جو چیزیں ان کے لئے اہم ہوتیں میرے نزدیک ان کی قدروقیمت زیادہ نہ ہوتی۔ جب میں کسی ایک معاملے پر توجہ مرکوز کرتا تو لازماً اسی دوران مجھے کسی دوسری طرف دھیان دینے پر مجبور کر دیا جاتا۔ میں زیادہ وقت میٹینگز اور ٹیلی فون پر گزار رہا تھا اور میرے پاس اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ اپنے منصوبوں کو پایا تکمیل تک پہنچانے کیلئے بھی کچھ ضروری اقدام کروں۔ یاد رہے کہ تب سیل فون ایجاد نہیں ہو تھا ورنہ تو مجھے کان کھجانے کی فرست بھی نہ ملتی، لہذا میں ایک طرح سے کان ہی کھجاتا رہتا تھا۔

میں نے انہیں وقت کے صحیح استعمال پر ایک سیمینار میں شرکت کے بارے میں بھی بتایا ۔ ایمانداری کی بات ہے کہ سیمینار میں شرکت کے بعد حالات مزید ابتر ہو گئے۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اس 3 روزہ سیمینار میں شرکت کے بعد میرا کام مزید تین دن پیچھے چلا گیا، مزید برآں اگرچہ مجھے اس سے اپنی کارکردگی بہتر بنانے میں کچھ مدد ملی لیکن ساتھ ہی ساتھ میں نے محسوس کیا کہ میری بڑھتی ہوئی کارکردگی سے میرے پاس مزید کام کرنے کی گنجائش پیدا ہو گئی ہے، میں جتنا بھی کام کرتا مزید کام میرے لئے تیار ہوتا۔

ایک میں تھا اور دوسری طرف میرے عملے کے افراد تھے، میں انہیں جہاں کہیں بھی ملتا ّ  آپریشن تھیٹر میں، راہداریوں میں کینٹین میں یا پارکنگ کی جگہ انہیں اپنے کسی نہ کسی کام کی تکمیل کے لئے ہمیشہ مجھ سے ہی کوئی نہ کوئی مدد چاہیے ہوتی۔ میرا اندازہ ہے کہ اسی وجہ سے مجھے زیادہ کام کرنا پڑتا تھا جبکہ وہ اکثر فارغ ہی دکھائی دیتے تھے۔ اگر میں اپنے دفتر کا دروازہ کھلا رکھتا تووہ لوگ مسلسل میرے کمرے میں گھسے چلے آتے چنانچہ میں نے اپنے کمرے کا دروازہ بند رکھنا شروع کر دیا، مجھے ایسا کرتے ہوئے دکھ ہوتا کیونکہ میں محسوس کرتا تھا کہ میں ان کا کام دبائے ہوئے ہوں، ایسے میں مجھے احساس ہوتا کہ سچ مچ میری سُستی ان کے جوش و جذبے کو کھائے جا رہی ہے۔

میاں عبدالعزیز نے توجہ کے ساتھ میری داستانِ غم سنی، جب میری بات ختم ہوئی تو انہوں نے کہا کہ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ میں مینجمنٹ میں بنیادی نوعیت کے ایک پھڈے کا شکار ہوں

آخر اس بات کی کیا وجہ ہے کہ باس کے پاس ہمیشہ وقت کی کمی رہتی ہے جبکہ ماتحت عملے کے پاس ہمیشہ کام کی۔

!پنگا نہیں لینا سر جی

قسط3

ڈاکٹر صداقت علی

میرے ماتحت تو ہاتھ دھو کر میرے وقت کے پیچھے پڑے تھے، لیکن کچھ اور لوگ بھی تھے جنہوں نے ہاتھ دھونے کا تکلف بھی گوارہ نہ کیا تھا، جب میں نے ان :سب لوگوں کو جمع کیا تو میرے خیال میں یہ ایک بہترین تبصرہ تھا جو میرے دل کی گہرائیوں سے ابھر غالباً مجھے ان لوگوں کے بارے میں شکایت نہیں کرنی چاہئے جنہیں ہر دم میری ضرورت رہتی ہے، بلکہ آج کل جیسے حالات جا رہے ہیں ہر فن مولا ہونے میں ہی مجھے اپنی نوکری پکی نظر آتی ہے۔

میاں عبدالعزیز نے فوراً ہی اس بات پر مجھ سے اختلاف کیا، انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ منتظم جن کے بغیر گزارہ ممکن نظر نہیں آتا، جب وہ دوسروں کے کام میں پنگا کرتے ہیں، وہ بہت گٹربٹر مچاتے ہیں وہ افراد جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بغیر گزارہ نہیں لہذا انہیں نکالا نہیں جا سکتا، اکثر گڑبڑ کی وجہ سے نکالے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں اگر وہ اپنے آپ کو کسی عہدے کے لئے لازم و ملزوم ثابت کر دیں تو افسران بالا ایسے افراد کو ترقی دینے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے کیونکہ انہوں نے اپنا جانشین تیار نہیں کیا ہوتا۔

ان کی وضاحت نے میرے خیالات کی رو کو باس کے ساتھ ہونے والی آخری گفتگو کی طرف موڑ دیا میاں عبدالعزیز نے کہا کہ اگرچہ اس قسم کے مینیجر کو ایسا کوئی عندیا نہیں دیا جاتا کہ ان کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا، لیکن جیسے جیسے میں اس بارے میں سوچتا چلا گیا مجھے احساس ہوتا گیا کہ اگر جلد ہی میں نے اپنا یہ مسئلہ حل نہ کیا تو ان کے ساتھ میری اگلی گفتگو میرے مستقبل اور کیریئر کے ’’پیچ و خم‘‘ پر ہو سکتی ہے! آخر ایسا کیوں نہ ہو؟ اگر میں اپنا چھوٹا سا شعبہ بھی نہیں چلا سکتا تو پھر شائد مجھے منتظم نہیں ہونا چاہئے- یہ خیال میرے ذہین میں ایک کوندے کی طرح لپکا، بادل زور سے گرجا میں ڈر گیا لیکن کسی نے مجھے بھینچ کر گلے سے نہ لگایا کیونکہ یہ کسی پا کستانی فلم کا سین نہ تھا۔

دوپہر کے کھانے پر یہی وہ مقام تھا جب میاں عبدالعزیز نے مجھے میرے مسائل کی انوکھی وجہ بتا کر کلین بولڈ کر دیا- سب سے پہلے تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ مسائل کو حل کرنے کے لئے میری اب تک کی کوششیں یعنی زیادہ کام کرنا، سیمینار میں شرکت وغیرہ صرف بیماری کی علامات پر اثر انداز ہوتی ہیں، بیماری کی وجہ پر نہیں- انہوں نے کہا کہ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ ہم بخار کیلئے اسپرین کی ایک گولی کھا لیں لیکن بخار کی وجہ کو بالکل نظر انداز کر دیں- نتیجہ ظاہر ہے مسئلہ تیزی سے پیچیدہ ہو جائے گاْ۔

مجھے اپنی اس وقت کی سوچ یاد ہے- میں یہ تو سننا ہی نہیں چاہتا تھا کہ آج تک میں جتنی محنت کرتا آیا ہوں مسائل اسی سے بڑھے ہیں، آخر کار اگر میں نے کام نہ کیا ہوتا تو آج میں اس سے بھی بہت پیچھے ہوتا۔

میں نے اپنے مہربان کی تشخیص پر اعتراض کیا لیکن اس وقت میرے اعتراض کے غبارے سے ہوا نکل گئی جب انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ میرے کام کرنے کا ڈھانچہ میری آمد کے بعد سے اب تک بالکل نہیں بدلا، جبکہ جاب بدل گئی ہے؛ اس دوران جو واحد تبدیلی ہوئی ہے وہ صرف یہ ہے کہ میرا شعبہ بدل گیا ہے لیکن میں بالکل نہیں بدلا- یکایک ایک تلخ حقیقت مجھ پر آشکار ہوئی، مجھے دشمن نظر آ گیا یعنی میں خود! مجھے اپنا طریقہ واردات بدلنا ہوگا۔

وہ لمحہ یاد کرتے ہوئے مجھے ان کارکنوں کی کہانی یاد آتی ہے جو اپنا کھانا ڈبوں میں بند کرکے لایا کرتے تھے، ان میں سے ایک نے اپنا ڈبہ کھولا اور چلا اٹھا پھر وہی “انڈہ کھیرا سینڈوچ”- یہ مسلسل چوتھا دن ہے کہ میں انڈہ کھیرا سینڈوچ کھا رہا ہوں، اور مجھے یہ بالکل پسند نہیں۔

اس کے ساتھیوں میں سے ایک بولا ’صبر صبر !‘ تم اپنی بیوی کو یہ کیوں نہیں کہتے کہ وہ تمہیں کوئی اور سینڈوچ بنا دیا کرے؟

بیوی! ہُونہہ وہ شخص گویا ہوا یہ سینڈوچ میں خود بناتا ہوں۔

بیوی! ہُونہہ وہ شخص گویا ہوا یہ سینڈوچ میں خود بناتا ہوں۔

تمہارا بنیادی مسئلہ پنگا لینے کی علت ہے۔

پنگا میں نے قہقہہ بلند کیا یہ بات قریباً درست لگتی ہے- میرے کام کاج کی ڈور اس قدر الجھی ہوئی ہے کہ سرا دکھائی نہین دیتا لیکن آخر آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ؟ پھرانہوں نے پنگے کی یہ تعریف بتائی۔

جب ہم یہ نہیں جانتے کہ کسی کام یا منصوبے میں اگلا قدم یا حکمت عملی کیا ہونی چاہیے اور یہ کون کرے گا اور ہم اس کی ذمہ داری فوری طور پر اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں، تو اسے کہتے ہیں “پنگا” لینا۔

!پنگا نہیں لینا سر جی

قسط4

ڈاکٹر صداقت علی

انہوں نے پنگے کی تشریح ایک مثال کے ساتھ کی جو حقیقی زندگی کے اتنا قریب تھی کہ میں آپ کے سامنے آج بھی اسے حرف بہ حرف بیان کر سکتا ہوں۔ ’’فرض کرو کہ میں اپنے ادارے کے ہال میں سے گزر رہا ہوں اور ایک کارکن سے میرا آمنا سامنا ہوتا ہے جو قریب آکر کہتا ہے ’’السلام علیکم! جناب ہمیں ایک مسئلہ درپیش ہے، کیا آپ مجھے ایک منٹ دے سکتے ہیں؟‘‘ اب چونکہ میرا اپنے کارکنوں کے مسائل سے آگاہ رہنا ضروری ہے اس لئے میں وہاں رک جاتا ہوں اور وہ مجھے اپنا مسئلہ وضاحت سے بتانا شروع کر دیتا ہے۔ چونکہ مجھے مسئلے حل کرنے کا خبط ہے، سو میں اس میں ڈوب کر رہ جاتا ہوں اور وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا، بظاہر پانچ منٹ گزرے لگتے ہیں، جب میں اپنی گھڑی پر نظر ڈالتا ہوں تو تیس منٹ گزر چکے ہوتے ہیں۔ اب جہاں میں جا رہا تھا، اس تبادلہ خیالات کے نتیجے میں وہاں پہنچنے میں تاخیر تو ہو ہی جائے گی مگر اس تبادلہ خیالات کے دوران میں یہ بھی جان چکا ہوں کہ مسئلے کو حل کرنے کے لئے میری رہنمائی ضروری ہے لیکن محض اتنی معلومات کی بنیاد پر میں کچھ فیصلہ کرنے راہنمائی دینے سے قاصر ہوں۔ پس میں کہتا ہوں ’’یہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے لیکن اس وقت میرے پاس اس موضوع پر بات کرنے کے لئے مزید وقت نہیں ہے مجھے اس پر کچھ سوچ بچار کرنے کے لئے وقت دو،پھر میں خود ہی تم سے رابطہ کروں گا اور پھر ہم دونوں ایک دوسرے سے جداہو جاتے ہیں۔

انہوںنے بات جاری رکھی ’’چونکہ میں براہ راست اس مسئلے میں الجھا ہوا نہیں ہوں اس لئے تم آسانی سے اس گو رکھ دھندے کو چشم تصور سے دیکھ سکتا ہوں، تاہم میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اگر تم جو خود اسی منظر کے وسط میں کھڑے ہو تو اسے صاف دیکھ لینا تمہارے لئے انتہائی کٹھن ہوگا، ذرا تم یہ تصور کرو کہ یہ کام جو تمہارے فرائض منصبی میں شامل نہیں، دراصل ایک پنگا ہے بلکہ تم اسے ایک بندر تصور کر لوتو اس ہال کمرے میں ملاقات سے قبل یہ بندر تمہارے عملے کے ایک فرد کی پُشت پر تھا، جب تم دونوں اس مسئلے پر گفتگو کر رہے تھے تو اس بندر کی ایک ٹانگ تمہاری پُشت پر تھی اور دوسری کارکن کی پُشت پر، لیکن جب تم نے یہ کہا کہ’’مجھے اس مسئلے پر غور کرنے دو پھر میں تم سے خود ہی رابطہ کر وں گا‘‘ تو بندر نے تمہا رے ماتحت کی پُشت سے اپنی دوسری ٹانگ اٹھا کر تمہاری پُشت پر رکھ دی تھی اور اس طرح تمہارا ماتحت تیس پونڈ ہلکا محسوس کرتا ہوا روانہ ہو گیا ،کیوں؟ کیونکہ اب بندر کی دونوں ٹانگیں تمہار ی پُشت پر منتقل ہو چکی تھیں۔

آئیں اب چند لمحوں کے لئے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ زیرِ بحث مسئلہ تمہارے کارکن کے فرائض منصبی سے تعلق رکھتا تھا اور مزید ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اپنے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے وہ چند تجاویز بھی پیش کر سکتا تھا، ایسی صُورت میں جب تم نے پنگا لینے کا فیصلہ کرلیا، تم دو ایسے کام کر گزرے جو تمہارے ماتحت کے کرنے کے تھے۔

تم نے اس شخص کے مسئلے کی ذمہ داری قبول کی اور تم نے اس شخص سے مسئلہ سُلجھانے کا وعدہ بھی کر ڈالا۔

ٹھہرو! میں تمہیں تفصیل سے سمجھاتا ہوں ہرمسئلے میں دو پاٹیاں ملوث ہوتی ہیں۔

ایک جسے مسئلے کو سلجھانا ہوتا ہے۔

اور دوسری جسے راہنمائی کرنا ہوتی ہے۔

لیکن جسے راہنمائی کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے اگروہ مسئلہ خود سے سلجھانے کا بیڑا اٹھائے تو پھر مسئلہ ایک پنگے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

جب ایک ہداتیکار اپنا کام چھوڑکر ایک درجن اداکاروں کی ذمہ داریاں اٹھالے تو کیا ہو گا؟

حالیہ بیان کردہ واقعہ میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ تم نے کارکن کا کردار سنبھال لیا‘ تمہارے ماتحت نے تمہاری نگرانی کا فریضہ انجام دینا شروع کر دیا اور اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ تم نئے باس کو پہچان لو اگلے دن وہ کئی دفعہ تمہارے دفتر میں آن ٹپکے گا اور پوچھے گا کہ تم نے اس مسئلے کا کیا کیا؟ اگر تم نے اس مسئلے کا کوئی حل اس کی تسلی کے مطابق نہ نکالا ہو تو وہ فوراً ہی تم پر اس کام کو نپٹانے کے لئے دبائو ڈالے گا جو دراصل اس کا اپنا ہی کام تھا۔

میں ہکا بکا رہ گیا۔ میاں عبدالعزیز کی بیان کردہ کہانی میں جب میں نے کرداروں کو گڈ مڈ ہو کر بدلتے دیکھا تو مجھے چشمِ تصور میں درجنوں پنگے نظر آئے جوحالیہ دنوں میں لے چکا تھا۔

ان میں سے تازہ ترین پنگا مجھے بنیامین نے ایک چٹھی کی صورت میں دیا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ جناب! شعبہ خریداری ’’ادویات کی درآمد‘‘ پر ہمیں مدد فراہم نہیں کر رہا کیا آپ ان کے مینیجر سے اس سلسلے میں بات چیت کر سکتے ہیں؟‘‘ اور یقیناً میں رضا مند ہو گیا اس وقت سے اب تک بنیامین دو مرتبہ اس مسئلے کی پیروی کے لئے پوچھ گچھ کر چکا ہے ’’جناب! ادویات کی درآمد کے منصوبے کا کیا بنا ہے؟ میں نے پشیمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا نہیں ابھی میری ان سے بات نہیں ہوئی لیکن فکر نہ کرو میں جلد ہی بات کر لوں گا۔

ایک اور پنگا میری طرف مریم نے اچھالا تھا‘ اس نے مجھ سے اس لئے مدد کی درخواست کی تھی کیونکہ بقول شخصے میں اس کی نسبت بعض ’’تکنیکی امُور‘‘ پر زیادہ مہارت اور گہری نظر رکھتا ہوں۔ یہاں آپ مکھن کی بھینی بھینی خوشبو محسوس کر رہے ہوں گے۔

میں نیک محمد سے ایک لینے کا وعدہ کر چکا تھا‘ اس کی خواہش یہ تھی کہ میں اس کی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں طے کردوں کیونکہ وہ ابھی حال ہی میں ایک نئے عہدے کیلئے ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے پرتول رہا تھا پس اس نے اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں مجھ سے پوچھا تو میں نے اس سے وعدہ کر لیا کہ میں جلد ہی اس کے عہدے کی ذمہ داریاں اسے لکھ کر دوں گا۔

میرے ذہن میں ایسے بے شمار پنگے آنا شروع ہو گئے جنہیں میں نے خود ہی اپنے اعصاب پر سوار کر رکھا تھا۔ حال ہی میں دو پنگے نامکمل کام کی صورت میں شمائلہ اور طارق نیازی نے مجھے دئیے تھے۔ میں ابھی شمائلہ کے پنگے کا تجزیہ کر رہا تھا اور ان پہلوئوں پر غور کر رہا تھا جن پر ابھی مزید کام کرنا باقی تھا کہ میں نے فیصلہ کر لیا کہ نئی بحث میں الجھنے سے بہتر ہوگا کہ میں پنگے بازی میں اوج کمال حاصل کروں اور اس کا کام خود ہی نمٹا دوں۔

پنگے‘ پنگے‘ پنگے! میرے پاس کچھ ایسے پنگے بھی تھے جو دوسروں کے لئے بھی درد سر بنے ہوئے تھے‘ یہ پنگے مریم نے میرے حوالے کئے تھے۔ مریم کے کام اور ذاتی عادات سے ادارے کے دوسرے ساتھیوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا‘ پھر یہ لوگ مسائل میرے پاس لے کر آتے اور میں ہمیشہ ہی اپنا مخصوص رٹا رٹایا جواب دے دیا کرتا اچھا میں اس مسئلے کو حل کر کے آپ سے رابطہ کروں گا۔

جب میں نے اس صورتِ حال پر غور کرنا شروع کیا تو مجھے احساس ہونے لگا کہ کچھ پنگے دراصل مواقع ہوتے ہیں‘ مثال کے طور پر بنیامین بہت زبردست تخلیقی صلاحیتوں کا مالک ہے اور اس کے ذہن میں انتہائی اعلٰی اور اچُھوتے خیالات جنم لیتے ہیں لیکن نرم سے نرم الفاظ میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے نظریات کو بخیرو خوبی اپنے انجام تک پہنچانے کی خاطر خواہ صلاحیت نہیں رکھتا ۔پس اس مجھے بے شمار ایسی سفارشات ارسال کیں جو اگرچہ ادھوری تھیں لیکن ان میں اتنی جان تھی کہ میں نے ان میں سے ہر ایک پر فرداً فرداً کام کرنے کے لئے یادداشتیں لکھ لیں تا کہ ان سفارشات کو منافع بخش صورت دی جا سکے۔

جیسے جیسے ایک کے بعد دوسرا پنگا میرے دماغ میں آتا چلا گیا ویسے ویسے مجھ پر یہ واضح ہوتا چلا گیا کہ ان میں سے بیشتر مسائل میرے ماتحتوں کو ہی سلجھانے چاہئیں تھے تاہم کچھ مسئلے واقعی میرے تھے یعنی وہ میرے ہی کرنے کے کام تھے۔ مثا ل کے طور پر اگر میرا کوئی کارکن بیمار ہو‘ ناتجربہ کار ہو یا پھر کسی وجہ سے اہلیت نہ رکھتا ہو تو ایسی صورت میں مجھے مدد فراہم کرنی چاہئے اور جب کبھی ہنگامی حالات پیدا ہو جائیں تو مجھے ایسے مسئلے بھی پکڑ لینے چاہئیں جو عام حالات میں اسٹاف سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک اور مثال ان مسئلوں کی ہے جو جائز طور پر میرے بنتے ہیں وہ ایسے کام ہیں جن کے لئے میرے کارکنان باضابطہ طور پر مجھ سے درخواست کریں۔ ایک مرتبہ کوئی ایسا مسئلہ میں باضابطہ طور پر پکڑ لوں تو پھر اسے سلجھانے اور منزِل مقصُود تک پہنچانے کے مختلف مراحل بھی مجھے ہی طے کرنے چاہئیں۔ مجھے ایسی سفارشات کو پڑھنا چاہئے یا جب ان کی تشریح کی جا رہی ہوتوسننا چاہیے‘ اس کے بارے میں سوالات کرنے چاہئیں‘ اس پر غور کرنا چاہئے‘ فیصلہ کرنا چاہئے‘ اس پر ردِعمل دینا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔

!پنگا نہیں لینا سر جی

قسط5

ڈاکٹر صداقت علی

میاں عبدالعزیز نے میرے اس مشاہدے سے اتفاق کیا کہ کچھ مسئلے واقعی ایسے ہیں جو مجھ سے ہی تعلق رکھتے ہیں لیکن اس بات سے ہم دونوں نے اتفاق کیا کہ میرے دفتر میں موجود مسئلوں کی غالب اکثریت کا تعلق مجھ سے نہیں تھا اور انہیں گود نہیں لینا چاہئے تھا۔ ظاہر ہے یہ محض پنگے تھے جو میں نے لئے! اس پر طرہ یہ کہ مجھے معلوم بھی نہیں تھا کہ میں پنگا لے رہا ہوں۔

آپ آسانی سے تصور کر سکتے ہیں کہ یہ گورکھ دھندہ کس طرح ایک منحوس چکر کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ جب میں ایسے پنگے گود لیتا تھا تو میرے ماتحتوں کو بالواسطہ یہ پیغام ملتا تھا کہ گویا میں پنگوں کا شوقین ہوں‘ پس قدرتی طور پر میں جتنے زیادہ پنگے لیتا تھا وہ اتنے ہی اور پنگے مجھے دینے کے لئے تیار رہتے تھے۔ جلد ہی میرے پاس پنگوں کا جم غضیر موجود ہوتا۔ مجھے اپنے باس اور دوسروں کی ذمہ داریوں کے علاوہ ما تحتوں کے پنگے سارا دن مجھے مصروف رکھتے، لیکن پنگے تھے کہ لپکتے ہی چلے آتے، یوں سمجھئے کہ پنگوں کی ایک بارات تھی جس میں گھرِا ہوا تھا اور میں پرائی شادی میں احمقوں کی طرح دھمال ڈال رہا تھا۔

آخر کار میں ایک ایسے مر حلے پر پہنچ گیا جہاں میرے پاس مزید کوئی وقت نہ تھا لیکن پنگے تھے کہ بن بادل برسات کی طرح چلے آرہے تھے۔ پھر وہ وقت آیا کہ میں نے اپنے کام ملتوی کرنے شروع کر دئیے‘ میں ٹال مٹول کرتا جا رہا تھا اور میرا عملہ مجسم انتظار تھا۔ ہم دونوں ہی اہم کاموں کو نہیں کر پا رہے تھے! میں ماتحتوں کی ذمہ داریاں اُن سے چھین لیتا تھا اور جو پنگے میں لیتا تھا وہ میری سکت سے زیادہ ہوتے تھے اور اس پر طُرہ یہ کہ دونوں کی توانائیاں ایک منفی کام پر ضائع ہو رہی تھیں۔

حد ہو گئی! میں نے اپنی ذاتی نوعیت کی مصروفیات مثلاً ورزش‘ مشاغل‘ سماجی‘ مزہبی و خاندانی سرگرمیوں سے وقت چرانا شروع کر دیا‘ ایسے میں میں یہ بودی دلیل دیا کرتا تھا کہ ان مصروفیات میں وقت کی مقدار سے کہیں زیادہ اہم چیز وقت کا معیار ہے۔

میری ٹال مٹول سے میرے کارکن جامد ہو کر رہ گئے تھے۔ ان کی وجہ سے دوسرے شعبے بھی جمود کا شکار ہو گئے۔ جب وہ لوگ مجھ سے شکایت کرتے تو میں جلد ہی مسائل حل کر کے ان سے ملنے کا وعدہ کرتا اس طرح دائیں بائیں سے جھپٹتے ہوئے پنگوں کے ساتھ میری مصروفیت سے میرے ماتحتوں کے پاس اور بھی زیادہ وقت بچ جاتا۔ پھراعلٰی انتظامیہ کو بھی اس بات کی بھنک پڑ گئی کہ میرے ہاں دال میں کچھ کالا ہے‘ حالانکہ پوری دال ہی کالی تھی انہوں نے مجھ سے پوچھ گچھ شروع کر دی کہ آخر مریضوں کو مطلوبہ خدمات احسن طریقے سے اور بروقت کیوں نہیں ملتیں؟ اور میری اوپی ڈی مچھلی مارکیٹ کا منظر کیوں پیش کرتی ہے؟ یہ اُوپر سے نیچے لٹکتے ہوئے پنگے تو اِلا ماشاء اللہ سب ہی پنگوں پر سبقت لے گئے نکہ یہ اتنا وقت کھانے لگے کہ باقیوں کے لئے وقت نہ بچتا‘ مجھے یوں لگتا کہ جیسے میں بہت سے بندروں میں گِھرا رہتا ہوں جو میری زندگی کو اجیرن بنانے میں کو کسر نہ چھوڑتے۔ آج جب میں پلٹ کر دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ ادارے پر میری ہی وجہ سے فالج گِرا ہوا تھا‘ جس قدر’’بربادی‘‘ میں نے پھیلائی تھی وہ ناقابلِ یقین تھی۔

یقیناً سب سے بڑا مسئلہ میرے قیمتی وقت کا زیاں تھا۔ دوسروں کی ذمہ داریوں پر وقت خرچ کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرے پاس اپنے کاموں کے لئے کوئی وقت ہی نہ تھا۔ میں لوگوں سے کام لینے کی بجائے ان کے اشاروں پر چل رہا تھا‘ بس گزارہ مزارہ ہی ہو رہا تھا۔

دوپہر کے کھانے پر میری اور میاں عبدالعزیز گفتگو کا موضوع زیادہ ترپنگوں اور ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے زلزے کے جھٹکوں کے اردگرد ہی رہا۔ جب کھانا ختم ہونے کو تھا مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ مجھے اس مسئلے کا حل تو معلوم ہی نہیں۔

مجھے بالکل یقین نہ تھا کہ میں اپنی ہمہ وقت پنگے بازی کے بارے میں کوئی قدم اُٹھا سکوں گا‘ پس میں نے گھٹنے ٹیک دیئے اور کہا ’’میں مانتا ہوں کے میں ہو لی فیملی ہسپتال جیسے بڑے ہسپتال کی تنظیمی ذمہ داریاں کو سنبھالنے میں ناکام رہا ہوں‘ پھر میں نے سوچا آخر اس مرض کی دوا کیا ہے؟ میں اپنے باس کے ساتھ پیدا ہونے والے مسائل کا کیا کروں؟ نیز ادارے میں میرے ساتھی میرا وقت ڈکار جاتے ہیں اس کا کیا حل نکالوں؟

انہوں نے جواب دیا ’’تمہاری پنگے بازی بہت گھمبیر شکل اختیار کر چکی ہے۔ تم ایڑی چوٹی کا زور لگا کر دائیں بائیں دوسرے لوگوں اور کلائینٹس سے پنگے لے رہے ہو، تمہارے رفیق کار تم سے مشورہ کرنے بیٹھیں تو تم پھر بھی پنگا لینے سے رک نہیں سکتے اور تمہارے ماتحت تو اس وہم میں مبتلا ہیں کہ تمہیں پنگے لینے کا بے انتہا شوق ہے اس لئے وہ موقع ملتے ہی پنگے تمہاری طرف اچھالنے لگتے ہیں‘‘ اگر تم اپنے ماتحتوں کے ساتھ ’’حالات‘‘ کو درست کرلو تو تمہارے پاس اتنا وقت بچے گا کہ تم پنگوں کی دوسری دو قسموں سے نپٹ سکو لیکن یہ نہ تو اس مسئلہ کو زیرِبحث لانے کا مقام ہے اور نہ ہی اِسے حل کرنے کا۔

اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تم اس سیمینار میں شرکت کرو جس کا عنوان ’’روزمرہ زندگی میں وقت کو لگام کیسے دیں؟ ہے۔ میں نے انہیں یاد دلایا کہ میں پہلے ہی وقت کو منظم کرنے کے بارے میں ایک سیمینار میں شرکت کر چکا ہوں لیکن اس سے مسئلہ بگڑا ہی ہے۔

اوہو! وہ گویا ہوا لیکن یہ سیمینار مختلف ہے اس سے قبل جس کورس میں تم نے شرکت کی اس کا مقصد یہ سکھانا تھا کہ کاموں کو درست کیسے کیا جائے؟ وہ بھی ٹھیک تھا لیکن وہاں تمہیں یہ سکھانے سے سے غفلت برتی گئی کہ کیوں نہ کام پہلے ہی درست طریقے سے کیے جائیں؟

اس سیمینار میں شرکت کے بعد تم پہلے سے زیادہ چابکدست ہو گئے اور تم نے وہ کام کرنے شروع کر دیئے جو تمہارے کرنے کے نہ تھے‘ تمہاری مثال ایک ایسے پائلٹ کی سی ہے جو غلط ایئر پورٹوں پر شاندار لینڈنگ کرتا ہو۔ جس سیمینار کی میں سفارش کر رہا ہوں اس میں تم یہ بھی سیکھوگے کہ وہ کام جنہیں کرنے کی ضرورت نہ ہو تو ان کاموں کو کرنے سے باز رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

جب ہم ریستوران سے باہر نکل رہے تھے تو میں نے میاں عبدلعزیز کا شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ میں سیمینار میں ضرور شرکت کروں گا‘ تاہم میں دل ہی دل میں حیران ہو رہا تھا کہ آخر میں اس سیمینار میں شرکت کیلئے دو دن کہاں سے نکالوں گا؟ جب میں نے ان سے یہ سوال پوچھا کہ آخر انہوں نے پنگے لینے سے اجتناب کرنا کہاں سے سیکھاتھا تو پھر ٹھیک یہی وہ وقت تھا جب مجھے اپنی زندگی کا شدید ترین جھٹکا لگا۔

میاں عبدالعزیز نے مسکراتے ہوئے کہا ’’کسی زمانے میں مجھے بھی یہی عارضہ لا حق تھا میں بھی ہمہ وقت پنگے لینے کے لیے بے قرار رہتا تھا بلکہ صورت حال اس سے بھی ابتر تھی۔ تمہاری طرح میرا مستقبل بھی خطرے میں تھا اور میں بھی بہت گھبرایا ہوا تھا۔ پنگے بازی بھی ایک طرح کی ایڈکشن ہے۔ ایک روز وقت کو منظم کرنے کے بارے میں ایک سیمینار کا تعارفی کتابچہ میری میز پر پڑا تھا اس کا نام تھا، ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔

میں نے فیصلہ کیا کہ میں اس سیمینار میں ضرور شرکت کروں گا‘ میرے دھن بھاگ کہ میں نے یہ فیصلہ کیا‘ وہیں سے میں نے ڈسپلن سیکھا اور آخر پنگے بازی سے باز آگیا۔

یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میاں عبدالعزیز جیسا کامیاب مینجر بھی کبھی مجھ جیسے حالات کا شکار رہا ہوگا‘ میں نے ان سے گزارش کی کہ وہ مجھے اس سلسلے میں مزید کچھ بتائیں‘ وہ فوراً ہی خوشی سے سب کچھ بتانے پر آمادہ ہو گئے۔

یہ کورس الطاف گوہر نے دبئی میں منعقد کیا تھا‘ میں اس سحر زدہ کر دینے والی کہانی کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا جس نے اس مسئلے کے بارے میں میری آنکھیں کھول دیں‘ یہ ڈرامائی کہانی خوفناک حد تک میری ہی آپ بیتی تھی۔

الطاف گوہر نے ہمیں بتایا کہ کس طرح تمہاری اور میری طرح وہ بھی گھنٹوں کام کرتا رہتا تھا لیکن پھر بھی کام تھا کہ ختم ہونے کا نام نہ لیتا تھا۔ مجبوراً ایک دن جمعہ کے روز بھی کام کرنے کے لئے گھر سے نکلنے لگا تو اس نے اپنی “اداس ناراض بیوی اور حیران بچوں سے کہا ’’میں یہ تمام قربانیاں تم ہی لوگوں کے لئے تو دے رہا ہوں‘‘ اس کے یہ الفاظ سن کر میری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی کیونکہ ابھی گزشتہ ہفتے یہ الفاظ میں نے اپنی بیوی بچوں سے کہے تھے۔

الطاف گوہر نے ہمیں بتایا کہ کس طرح اس نے جمعہ کے روز اپنے دفتر کی کھڑکی سے باہر گالف کے میدان میں دیکھا جہاں اس کے ماتحت والی بال کا مزہ لینے کے لئے تیار تھے۔ ان کا مزہ شروع ہونے کو تھا اور میرا ختم ہونے کو۔ میرے ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا کہ اگر میں جادو کے زور سے مکھی بن جائوں اور اُڑ کر ان لوگوں کے سروں پر بھنبھنانا شروع کر دوں تو کچھ اس قسم کی گفتگو سنائی دے گی تم نے دیکھا باس کی کار کھڑی ہے وہ آج بھی کام کرنے آیا ہے لگتا ہے آخر کار اس نے حق حلال کی کھانے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے۔

میاں عبدالعزیز نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’پھرالطاف گوہر نے ہمیں بتایا کہ اس نے اپنی میز پر پڑے کاغذات کے پلندے پر نظر ڈالی۔ اسے احساس ہوا کہ یہ تمام کام اس کے تو نہیں ہیں۔ وہ تو ان لوگوں کے کام دھندے نپٹا رہا ہے‘ یہ تو انہی لوگوں کے کام ہیں جو وہ نہیں کر پا رہا‘ اس نے آج تک اپنا کام تو شروع ہی نہیں کیا کیونکہ وہ تو دوسروں کے کام کاج ہی کرتا رہتا ہے پھر بجلی کی طرح ایک خیال اس کے ذہن پر کوندا ’’وہ میرے ماتحت نہیں ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میں ان کا ماتحت ہوں! وہ سب مل کر کام پیدا کر رہے ہیں اور میںتنہا اسے نپٹانے کی کوشش کر رہا ہوں ‘
اس طرح تو میں ساری زندگی یہ کام ختم نہیں کر سکوں گا کیونکہ میںجتنا زیادہ کام کروں گا یہ لوگ اتنا ہی مزید کام لا کر میری میز پر رکھ دیں گے۔

!پنگا نہیں لینا سر جی

قسط6

ڈاکٹر صداقت علی

میاں عبدالعزیز نے اپنی گفتگو جاری رکھی‘ بظاہر وہ بھی الطاف گوہر کی کہانی سے لطف اندوز ہورہے تھے تاہم آگے کی کہانی انہوں نے الطاف گوہر کی زبانی سنائی’’مجھے افسوس ہوا کہ میں کچھ اور چیزوں میں بھی بہت پیچھے رہ گیا ہوں‘ پس میں اپنے دفتر سے بھاگتا ہوا اتنی تیزی سے نکلا جتنی تیزی سے میری ٹانگیں میرا ساتھ دے سکتی تھیں‘ چھٹی والے دن کے چوکیدار نے مجھے اس برق رفتاری سے جاتے دیکھ کر پوچھا کہ میں اتنی تیزی سے کہاں جا رہا ہوں؟

میں نے چلاتے ہوئے کہا یہ نہ پوچھو کہ میں اتنی تیزی سے کہاں جا رہا ہوں بلکہ یہ پوچھو کہ اتنی تیزی میں میں کہاں سے جا رہا ہوں؟

میاں عبدالعزیز نے کہا الطاف گوہر نے مزے لے لے کہ مجھے بتایا کہ کس طرح وہ پانچ پانچ سیڑھیاں پھلانگتا ہوا پارکنگ لاٹ میں پہنچا‘ اپنی کار میں چھلانگ لگائی اور کار کو گھر کی طرف بھگا دیا۔ آدھ گھنٹے کے اندر اندر وہ دو دن کام کرنے کی کوفت سے نکل کر دو دن اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزارنے کی سنسنی خیز کیفیت دوچار تھا۔ اس نے یہ دو چھٹیاں دل کھول کے اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزاریں‘ ہفتے کی رات کو وہ اتنی گہری نیند سویا کہ دو دفعہ اس کی بیوی کو شک گزرا کہ کہیں وہ مر ہی نہ گیا ہو۔

ہاں میاں عبدالعزیز بات جاری رکھتے ہوئے بولے الطاف گوہر نے میرے حالات کی مکمل تصویر کشی کی تھی۔ مجھے تو گویا پنگے لینے سے عشق تھا‘ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے یہ مسئلہ حل کرنے کا سلیقہ سکھا دیا اور وہ دن جائے اور یہ دن آئے یہ مسائل دوبارہ میری زندگی میں پیدا نہیں ہوئے اور مجھے یقین ہے کہ تمہاری زندگی میں بھی ایسا ہی ہوگا۔

میں نے کہا میں شرط لگا سکتا ہوں کہ آپ نے جس سیمینار میں شرکت کی اس کا موضوع کیا تھا؟ میاں صاحب نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا، پنگا نہیں لینے کا سر جی۔

جب ہم ایک دوسرے سے الگ ہوئے تو میں حیرت میں ڈوبا ہوا گھر لوٹا‘ جب میں اندر داخل ہوا تو مجھے جا بجا وہ پنگے نظر آئے جو میں بے دھڑک لیتا رہا تھا‘ جہاں مجھے پہلے ہدایات سے بھرے کاغذات کے پلندے نظر آیا کرتے تھے وہاں اب مجھے بندر نما پنگے نظر آ رہے تھے۔ایک لمحے کو مجھے خیال آیا‘ کیوں نہ میں دوسرے پنگے باز لوگوں کو ردی کاغذات مہیا کرنے کا کاروبار شروع کر دوں؟

مجھے سارے پنگے بے چین بندروں کی طرح نظر آنے لگے ٹیلیفون کے ذریعے آئے ہوئے پیغامات بھی میری نظر میں بندر ہی تھے‘ میں نے چشم تصور سے ایک بندر کو ٹیلی فون کی تار میں سے ایسے گزرتے ہوئے دیکھا جیسے کوئی سور تنگ راستے میں سے گزرتا ہے۔ مجھے ایسے محسوس ہوا گویا میرا بریف کیس بندروں کی آماجگاہ ہے‘ میری میز پر پڑا نوٹ پیڈ مجھے وہ کنڈی دکھائی دیا جس کی مدد سے میں دوسروں کے بندر ان کی پشت سے کھینچ لیا کرتا تھا۔

اس اثناء میں جب میں اپنے کمرے میں ادھر اُدھر نظر دوڑا رہا تھا تو میری نظر اپنی بیوی اور بچوں کی تصویر پر آکر ٹھہر گئی اور مجھے احساس ہوا کہ میں تو آج تک اس تصویر میں موجود ہی نہ تھا‘ میں نے اس صورت حال کو درست کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

اہل خانہ کی اس تصویر نے مجھے یہ بھی احساس دلایا کہ میں اور میری بیوی اکثر اپنے بچوں کے پنگے بھی پکڑتے رہتے ہیں‘ ابھی حال ہی میں ہمارا بیٹا گھر آیا اور ہمیں کہنے لگا امی ابو! میں جونیئر کرکٹ ٹیم میں شامل ہو گیا ہوں۔

میں نے کہا بہت اعلٰی! مجھے تم پر فخر ہے۔ تمہاری ماں نے بہت عظیم بچہ جنم دیا ہے۔

پھر وہ کہنے لگا ’’صرف ایک مسئلہ درپیش ہے‘ ہر پیر‘ منگل اور بدھ کو آپ میں سے کسی ایک کو مجھے سکول پہنچانا ہوگا اور جب ہم لوگ کھیل ختم کر لیں تو مجھے وہاں سے واپس بھی لانا ہوگا۔ آپ کے خیال میں اس پنگے کو اچک کر کس نے پکڑا؟ یقیناً میں نے اور میری بیوی نے‘ سارا معاملہ خوشی مناتے مناتے بندر میں بدل گیا۔

زیادہ برا یہ ہوا کہ یہ تازہ بندر طلسم ہوش ربا کی طرح قد آور ہونے لگا میری بیوی میرے بیٹے سے کہنے لگی ’’میں تمہیں پیر اور منگل کے روز سکول چھوڑنے جا سکتی ہوں لیکن بدھ کے روز میرے لئے ممکن نہیں‘ تمہاری ٹیم میں اور کون کون ہے؟ ہو سکتا ہے میں ٹراسپورٹ کا مسئلہ اس طرح حل کر دوں کہ آپ لوگ ایک ہی کار میں بیٹھ کر سفر کر سکیں۔

جب میرے بیٹے نے بتایا کہ ٹیم میں اور کون کون ہے تو اس نے کہا ’’لاڈو! میں ابھی جھٹ سے یہ مسئلہ حل کر دوں گی اور تمہیں بتا دوں گی کہ تمہیں کون چھوڑا کرے گا؟‘‘ اس کے بعد ہمارا بیٹا انتہائی خوشی سے شکریہ کہتے ہوئے ٹیلی ویژن دیکھنے چلا گیا‘ اس کی بلا سے مسئلہ کیسے حل ہوگا؟

ظاہر ہے میرا بیٹا کار چلانا نہیں جانتا تھا اس لئے خود آنا جانا اس کے لئے مشکل تھا لیکن وہ اسکول میں تعلیم و تربیت اور گھر کے قریب کرکٹ کلب میں جا سکتا تھا اور اس دوران اپنی ذمہ داری خود اُٹھانا بھی سیکھ سکتا تھا‘ اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ ہم کس قدر آسانی سے غیر ضروری طور پر زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی لوگوں کے بندر پکڑ لیتے ہیں‘ اس دوران ہم اپنے فرائض منصبی کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یوں ہم دوسرے لوگوں کو اپنی ذات پر انحصار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور انہیں اس تربیت سے محروم کردیتے ہیں جو اپنے مسائل حل کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔

آج جب میں ماضی کے حوالے سے سوچتا ہوں تو مجھے یہ مقولہ زیادہ اچھی طرح سمجھ آرہا ہے کہ اگر آپ کسی کو اپنا بنانا چاہتے ہیں تو اسے کبھی اس چیز کا احساس نہ ہونے دیں کہ وہ ہمہ وقت آپ پر تکیہ کر سکتا ہے۔ بلکہ اسے یہ محسوس کرائیں کہ کسی نہ کسی طرح آپ اس پر انحصار کر رہے ہیں‘‘ اب میں جا ن گیا ہوں کہ ایک دوست کو دشمن میں بدلنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے اپنے احسانات تلے دبا دیا جائے۔ آپ کو بھی اچھی طرح یاد ہو گا کہ جب بھی آپ نے کسی پر احسانات کئے پھر اس نے آپ کو دھوبی پٹخا ہی مارا۔

جب میں دوپہر کے کھانے پر میاں عبدالعزیز کے ساتھ ہونے والی گفتگو پرغو ر غوص کر رہا تھا تو مجھے محسوس ہوا کہ وہ اس بات پر متفق تھے کہ میں ایک ’’نجات دہندہ‘‘ کا کردار ادا کر نے کی کوشش کر رہا ہوں یعنی میں دوسروں کے لئے وہ کام کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو وہ اپنے لئے خود کر سکتے تھے اور اس اثناء میں میں انہیں یہ پیغام دے رہا تھا کہ وہ نااہل ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ جب بھی کوئی شخص میرے پاس اپنا مسئلہ لے کر آتا تھا اور رضا کا رانہ طور پر اُس شخص سے مسئلہ حل کرنے کا وعدہ کر لیتا ہوں تو ایسے میں میں درحقیقت یہ کہہ رہا ہوتا تھا تم اس مسئلے کو حل کرنے کے اہل ہی نہیں ہو اس مسئلے کو خود میں ہی حل کروں تو بہتر ہے۔

میاں عبدالعزیز نے کہا کہ وہ اکیلے ہی یہ سب پنگے بازی نہیں کر رہے تھے‘ سچ مچ پنگے بازی تو ہمارے ملک میں ایک بیماری کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ انہوں نے ’’انجمن شہید وفاء‘‘ جیسی تنظیم کی داغ بیل ڈالنے میں بھی کچھ پیش رفت کی۔ یہ تنظیم دوسروں کے بندر گود لینے کے خبط میں مبتلا لوگوں نے چلانی تھی‘ یہ ایسے ’’نیک‘‘ اور ’’محبت کرنے والے‘‘ لوگوں کا گروہ ہونا تھا جو دوسروں کی مدد اور خدمت کیلئے ادھار کھائے بیٹھے رہتے ہیں‘ بلکہ حقیقت میں یہ لوگ دوسروں کو مدد کی آڑ میں مفلوج کر رہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ’’نجاشادہندگی‘‘ کو اپنے معاشرے اور حکومت میں قریباً سرکاری حیثیت دے رکھی ہے۔

پھر میاں عبدالعزیز نے اس ملک میں موجود نجات دہندہ بننے کی ذہنیت کو اپنی چھوٹی سی کرکٹ ٹیم کی مثال سے واضح کیا‘ مجھے اب بھی ان کے الفاظ واضح طور پر اپنی سماعت سے ٹکڑاتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔

میاں عبدالعزیزنے کہا، ’’یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں بچہ تھا اور سب لو گ مجھے جی جی پکارتے تھے۔ ایک تو یہ میرا نک نیم تھا، دوسرا میں ویسے بھی بہت جی! جی! کرتا تھا۔ ہم لوگ کرکٹ کھیلنا چاہتے تھے تو ہمیں تین مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ سب سے پہلے تو ہمیں کھیل کے سامان کی ضرورت پڑتی‘ ان دنوں کھیلنے کے لئے جس واحد چیز کی ضرورت ہوتی وہ اپنا بلا ہوا کرتا تھا۔

اس دور میں دستانوں‘ پیڈز اور ہیلمٹ کا رواج تھا اور نہ ہی یہ ممکن تھا کہ آپ کا بلا ٹوٹ جائے تو آپ بھاگتے ہوئے گھر جائیں اور اپنے والدین سے نئے بلے کی فرمائش کر دیں۔ اس کی بجائے اسی بلے کو کیل ٹھونک کر اور اس پر ڈوری لپیٹ کر گزارا کر لیا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے جب اس طرح کے کسی مرمت شدہ بلے سے ہم لوگ کوئی زور دار شاٹ کھیلتے تو پھر کتنی دیر تک سنسناہٹ کی وجہ سے ہمارے ہاتھ درد کرتے رہتے۔

نو سال کی عمر تک تو مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کرکٹ کی گیند سُرخ ہوتی ہے‘ یہ عقدہ مجھ پر اس وقت کھلا جب ہمارے گھر پہلا کلر ٹی وی آیا۔ ہم تو ٹینس کی گیند پر سیاہ ٹیپ لپیٹ کر کھیلا کرتے تھے۔ بعض اوقات ٹیپ اتنی زیادہ لپیٹ دی جاتی کہ نہ صرف گیند کا سائز بڑا ہوجاتا بلکہ گیند زیادہ سخت اور وزنی ہو جاتی جس کی وجہ سے ہمیں اونچی شارٹس کھیلنے میں دشواری ہوتی۔

اور دستانے؟ میاں عبدالعزیز نے اپنی گفتگو جاری رکھی ’’حالانکہ میرا تعلق کوئی جونپڑ پٹی سے نہ تھا لیکن ہم لوگ اکثر بغیر دستانوں کے ہی کھیلنے آتے۔ آج میں ایسے بچوں کو جانتا ہوں جن کے پاس دستانوں کی تین تین چار چار جوڑیاں ہوتی ہیں۔

آخر کار ہمارا سامان مکمل ہوجاتا تو پھر دوسرا مسئلہ یہ اُٹھ کھڑا ہوتا کہ کھیلا کہاں جائے؟ اگر تو آپ کسی شہر کے رہنے والے ہو تو کسی ایسے چوک میں کھیل لیا جاتا جہاں ٹریفک زیادہ نہ ہوتی اور لوگ اپنی گاڑیوں کو ذرا سنبھا ل کر چلانے پر آمادہ نظر آتے۔ وکٹوں کی جگہ لوہے کی تین سلاخوں کا ویلڈنگ شدہ سٹینٖڈ کھڑا کر لیا جاتا اور اگر کسی گائوں میں رہائش ہوتی تو پھر کسی خالی کھیت میں میدان جمتا‘ بس اس میں موجود پتھروں کی صفائی کرنا پڑتی سوائے ان پتھروں کے جنہیں ہم نشان کے طور پر استعمال کرتے تھے۔

!پنگا نہیں لینا سر جی

قسط7

ڈاکٹر صداقت علی

“آج والدین کے طور پر ہم نے بچوں سے تمام ذمہ داریاں چھین لی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کے تمام پنگے ہماری پیٹھ پر سوار ہو گئے ہیں۔ اس طرح بچے احساس ذمہ داری نہیں سیکھ پاتے۔ ہم پوری نیک نیتی سے اپنے بچوں کو وہ تمام سہولتیں فراہم کرنے کی کوششیں کرتے ہیں جن سے ہم محروم رہے تھے اور بسا اوقات ہم انہیں ایسی نعمتوں سے محروم کر دیتے ہیں جن سے ہم نے بھرپور فیض اُٹھایا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی تفریح اور کھیل کود کے انتظامات خود کرتے تھے اور اس کا ایک اپنا ہی مزا تھا۔

میدان اور سامان کا بندوبست ہوجانے کے بعد تیسرا مرحلہ یہ ہوتا کہ بچے کہاں سے لائیں؟ بچوں کی تعداد کافی نہ ہوتی اس لئے کوئی بھی بچہ خواہ وہ کسی بھی عمر کا ہوتا اسے کھلا لیا جاتا۔ ایسے بچے کو ریلو کٹا کہا جاتا۔ نتیجتاً دونوں ٹیموں میں آٹھ سال کی عمر سے لے کر اٹھارا سال تک کے ’’بچے‘‘ موجود ہوتے۔ بچپن میں میرے بہت سے ہیرو تھے‘ مجھے یاد ہے کہ اگر حنیف محمد مجھے ہیلو بھی کہہ دیتا تو میں خوشی سے پاگل ہوجاتا! میں کبھی گھر واپس جاکر یہ شکایت نہ کرتا کہ مجھے سارا دن فیلڈنگ کرنے کے باوجود باری نہیں ملی‘ میں یہ سوچا کرتا تھا کہ مجھے صبر کے ساتھ بڑا ہونے کا انتظار کرنا چاہیے اور جب میں بڑا ہوجائوں گا تو پھر جی بھر کے باریاں لیا کروں گا اور جتنا جی چاہے فیلڈنگ کیا کروں گا۔

جب میدان‘ سامان اور کھلاڑیوں کا بندوبست ہوجاتا تو ہم کھیل کا آغاز کرتے اور ظاہر ہے چند دن تواتر سے کھیلنے کے بعد ہمارے کھیل کا معیار بلند ہوجاتا‘ پھر ہم لوگ آپس میں کہتے کہ فلاں ٹیم کا کھیل بہت اچھا ہے اسے چیلنج کرنا چاہیے۔ سو ہم انہیں چیلنج کرتے‘ یہ مقابلے اتوار کے روز ہوا کرتے اور اکثر ہم جیت جایا کرتے تھے۔

جب ہماری ٹیم عروج پر تھی اس وقت ہمارے ہیرو فضل محمود‘ حنیف محمد اور حفیظ کاردار ہوا کرتے تھے۔ ہمارے کھیل کی ساری منصوبہ بندی کون کرتا تھا؟ ہم کرتے تھے۔ ٹیم کو منظم کون کرتا تھا؟ ہم کرتے تھے۔ شوق کون اُبھارتا تھا؟ کنٹرول کون کرتا تھا؟ ہم کرتے تھے اور کون؟

میاں عبدالعزیز نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’اور یہ سارے کام آج کون کرتا ہے؟ والدین بچوں کو صرف اتنا کرنا ہوتا ہے کہ بس تیار ہوجائیں‘ پھر شاہین آفریدی اور حسن علی نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ بات صرف کرکٹ تک ہی محدود نہیں ہے۔ یہ چیز نوجوانوں کے ہر کھیل میں سرایت کرچکی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ گزشتہ دنوں میں ایک کینیڈین کمپنی کے بڑے مینجر کے ساتھ کام کر رہا تھا‘ دوپہر کو وہ کہنے لگا ’’اگر آپ بُرا محسوس نہ کریں تو میرے ساتھ کار میں میرے بیٹے کو گھر سے لینے کے لئے چلیں‘ اُسے ایک ہاکی میچ کی پریکٹس کے لئے قذافی سٹیڈیم اُتارنا ہے۔ ہم اس کے گھر گئے‘ جب اس نے ہارن دیا تو ایک دبلا پتلا سا لڑکا ہاکی کے سازوسامان کا ایک بڑا بیگ اُٹھائے ہوئے باہر نکلا۔

بیگ کے وزن سے لڑکا دُہرا ہوا جا رہا تھا‘ میں نے پوچھا کے بچے کی عمر کتنی ہے؟ جواب ملا ’’سات سال‘‘ کار تک پہنچنے سے پہلے بچہ لڑکھڑایا اور گرِ پڑا‘ اگر ہم نے کار سے نکل کر اس کی مدد نہ کی ہوتی تو وہ اس بلڈوزر بیگ تلے دب کر مر گیا ہوتا‘ اس تمام سازوسامان کے ساتھ ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی کہ وہ خودبخود اٹھ کھڑا ہوگا۔

مجھے یاد ہے کہ جب میں بچہ تھا تو ہم لوگ اپنے سکول کے سامنے والی گرائونڈ میں ہاکی کھیلا کرتے تھے میاں عبدالعزیز کہنے لگے ’’ہم سارا دن گرائونڈ صاف کرتے اور جب ہم صفائی کر لیتے اور عین کھیلنے کے لئے تیار ہوتے تو ہماری مائیں آجاتیں اور کہتیں کہ گھر چلو اور کھانا کھائو۔ ہم کہتے ہم نے نہین جانا، تو وہ کہتیں کہ ’’آج آلے تمہارا پیو پھر دیکھنا تمہارا کیا ہوتا ہے! تو ہم ڈر کر گھر کی طرف چل پڑتے۔ ہڈیاں چخٹتی ہوئی محسوس ہوتیں! ایک ایک قدم من من کا لگتا۔

جب کبھی دوبارہ کھیلنے آتے میدان پھر سے کوڑے کرکٹ سے بھر چکا ہوتا اور ہمیں ایک مرتبہ پھر سے صفائی کرنا پڑتی آخر کار جب کبھی ہماری قسمت یاوری کرتی تو ہمیں کھیلنا نصیب ہوتا اور وہ اس طرح کہ گول کی جگہ پر ہم دو پتھر رکھ دیتے جو گول پوسٹ کو ظاہر کرتے۔ اگر اس زمانے میں آپ گول کیپر کی جگہ کھیل رہے ہوتے اور دستانے یا پیڈ پہننے کی کوشش کرتے تو ساری ٹیم آپ کو زنخا کہہ کر چھیڑتی۔

آج کے بچے جب تیار ہوجاتے ہیں تو انہیں کھیل کے میدان تک پہنچایا جاتا ہے اور جب وہ عالیشان میدانوں میں کھیل رہے ہوتے ہیں تو باہر والدین ان کے لئے مشروبات‘ برگر اور مز ے مزے کی چیزیں بنوا رہے ہوتے ہیں‘ ظاہر ہے وہ چاہتے ہیں کہ بچہ کہیں بھوکا نہ رہ جائے۔

کئی والدین ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جب ان کا بچہ کھیل رہا ہو تو وہ باہر بیٹھ کے سکورنگ کر رہے ہوتے ہیں اور اگر دو رنز لینے کے بعد بچہ رن آئوٹ ہو جائے تو بے چارے والدین کی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ آئوٹ کیسے ہو گیا اور سکور کیا لکھیں؟ ان کی پریشانی دیدنی ہوتی ہے‘ گویا کہ وہ ورلڈکپ کی سکورنگ کر رہے ہوں۔

کھیل کے میدان کے باہر عموماً ایک بچہ لمحہ بہ لمحہ بدلتا ہوا سکور‘ بورڈ پر لکھ رہا ہوتا ہے‘ وہ بری طرح پسینے سے شرابور ہوتا ہے‘ ہمارے زمانے میں یہ سارا جھنجھٹ نہیں ہوتا تھا‘ ہم لوگ کرسی پر بیٹھ کر ایک چھڑی کی مدد سے زمین پر ہی سکور لکھ لیا کرتے تھے‘ اکثر مخالف ٹیم کا کھلاڑی سکور کے پاس آکر کہتا ’’تم غلط سکورنگ کر رہے ہو‘‘ یہ کہنے کے بعد وہ پائوں سے سکور مٹا ددیتا‘ ایسے میں کبھی کبھار دھینگا مشتی بھی ہو جاتی۔ اسے پرے ہٹانے کے بعد وہی پرانا سکور لکھ دیا جاتا۔

اور آخری فرق‘‘ میاں عبدالعزیز اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے ’’آج جب آپ کی مخالف ٹیم ہار جائے تو آپ اس کا مذاق بھی نہیں اڑا سکتے بلکہ آپ چائے خانہ یا آئس کریم پارلر یا “چائے خانہ” پر جا کر اکٹھے آئس کریم بھی کھانا پڑتی ہے۔ کیا کبھی تم اتوار کے دن چمن آئس کریم بیڈن روڈ کا رخ کیا ہے؟ وہاں پر یہ مستقبل کے چیمپئن چلا چلا کر آئس کریم طلب کر رہے ہوتے ہیں۔

آج کے اکثر بچے یہ نہیں جانتے کہ اگر ان کے لئے کوئی اور منصوبہ بندی نہ کرے تو وہ کیا کریں گے؟ جب میں بچہ تھا اور کبھی اپنی والدہ سے یہ کہہ بیٹھتا کہ مجھے بوریت ہو رہی ہے تو وہ میری پیٹھ پر لات رسید کر کے کہتیں ’’کہو بوریت دور ہوئی؟‘‘ یا پھر کہتیں زبردست چلو چل کر میرے ساتھ برتن دھلوائو‘‘ اور اس طرح ہماری بوریت فٹافٹ دور ہو جاتی۔۔

میاں عبدالعزیز سے گفتگو اور اس کے تجویز کردہ سیمینار میں شرکت کے بعد مجھے یہ علم ہوا کہ میں جس قدر دوسرے لوگوں کے مسائل حل کرنے کی ذمہ داری اُٹھاؤں گا‘ مجھ پر ان کا انحصار اتنا ہی بڑھ جائے گا‘ اس دوران ان کی عزت نفس اور اعتماد بری طرح مجروح ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے اور روزمرہ کا کام کاج نپٹانے میں ناکام رہوں گا۔

پنگے بازی کی اس علت نے میری زندگی میں بہت تباہی مچائی تھی۔ میرے دائیں بائیں میرے اسٹاف کے بیشتر بندر عدم توجہ سے قابل رحم حد تک نحیف و لاغر ہو چکے تھے اور پیچیدہ گورکھ دھندا بن چکے تھے۔

یہ سارے پنگے جو بندروں کے ایک ریوڑ کی شکل میں میرے دفتر میں برا جمان تھے میری زندگی کو اجیران بنا رہے تھے۔ میں نے تصور ہی تصور میں اپنے کندھے پر موجود ایک ماتحت کی بندریا پر نظر ڈالی اور کہا ’’بچُو! فکر نہ کرو تم جلد پیا گھر جانے والے ہو، میں تمہارے ہاتھ پیلے کرنے ہی والا ہوں‘‘ اور پھر سب سے بڑے بندر پر نظر دوڑاتے ہوئے میں اس سے گویا ہوا ’’اور تم بھی فکر نہ کرو بن مانس میں جلد ہی تم سے بھی دو دو ہاتھ کرتا ہوں۔

مثبت سوچ میرے دل میں گھر کر گئی۔ میری نظر کمرے میں پڑی ہوئی مختلف اشیاء سے ہوتی ہوئی دیوار پر لگے ہوئے ایک پوسٹر پر جاکر رک گئی۔ یہ پوسٹر میری مرحوم بیوی رخسانہ نے چند سال پہلے مجھے دیا تھا‘ اس پر نیوٹن کی تصویر کچھ اس طرح سے بنی ہوئی تھی کہ جیسے اس کے سر پر سیب ابھی ابھی ٹپکا ہو۔ اس کے نیچے لکھا تھا۔

تجربہ اس کا نام نہیں کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا؟ تجربہ یہ ہے کہ پھر آپ نے کیا کیا؟

!پنگا نہیں لینا سر جی

قسط8

ڈاکٹر صداقت علی

جمعرات کو جب میں دوپہر کا کھانا کھانے کے بعداپنے دفتر میں بیٹھا تھا تو مجھے شِدت سے اپنے کایا پلٹنے کا احساس ہوا ساتھ ہی ساتھ میرے دل میں یہ خیال بھی موجود تھا کہ ابھی مجھے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ تاہم اس روز میں وقت سے کچھ پہلے ہی اپنے دفتر سے اُٹھ آیا تاکہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ایک شاندار چُھٹی گزار سکوں۔ بلکہ سچ پوچھیں تو ہمارے محلے کے امام مسجد نے مجھے جمعہ کے روز مسجد میں دیکھ کر حیرت کا اظہار بھی کیا کیونکہ یہ وقوعہ چھوٹی عید کے بعد پہلی دفعہ ہوا تھا اور چھوٹی عید پر انہوں نے احتیاطاً مجھے بڑی عید کی بھی پیشگی مبارک دے دی تھی۔

میرا خیال ہے کہ اس وقت آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ چھٹی گزارنے کے بعد جب میں دفتر پہنچا تو ان پنگوں کا کیا بنا؟ کچھ بھی نہیں اول تو مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ میں اِن پنگوں کا کیا کروں؟ پنگے لیتے ہوئے بہت مزہ آتا ہے لیکن جب دنگے شروع ہوتے ہیں تو بہت بدمزگی ہوتی ہے اور دوسرے میں نے ہفتے کے پہلے تین دن ساری چیزوں کو ترتیب دینے میں لگا دیئے تاکہ میں میاں عبدالعزیزکے تجویز کردہ سیمینار میں شریک ہو سکوں۔

جیسے تیسے میں اس سیمینار میں شریک ہو ہی گیا جیسا کہ میاں عبدالعزیز نے کہا تھا اس سیمینار میں شمولیت آنکھیں کھول دینے والا تجربہ تھا۔ اس کی جو بات مجھے سب سے زیادہ پسند آئی وہ یہ تھی کہ آپ جو کچھ سیکھتے ہیں اس پر فوری عمل بھی کر سکتے ہیں سیمینار ختم ہونے کے بعد میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کِس طرح فوراً دفتر پہنچوں اور پنگوں کو اپنے حتمی انجام تک پہنچا دوں۔ یہ پنگے بندروں کے ایک غول کی طرح میرے ارد گرد پٹو سیاں مار رہے تھے اور میں بے بسی سے انہیں دیکھا کرتا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب تمام بندروں سے وہ سلوک ہوا جو بادشاہ بادشاہوں سے کیا کرتے ہیں۔ آپ یقین کریں یہ ایک ایسا دن تھا جسے میں اور میرا تمام عملہ کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے۔

اس روز جب میں گھر سے کام پر گیا تو میرا ذہن ان حربوں اور تکنیکوں کے خیال سے ہی سہانے خواب دیکھنے لگا جو میں اپنے سٹاف پر آزمانے والا تھا میں اپنے ماتحتوں کے کام دھندے انہیں لوٹانے کیلئے بے چین تھا۔ اس دن ٹریفک جام ہونے کے سبب میں اپنے دفتر قریباً دس منٹ دیر سے پہنچا۔ یہ وقت میرے عملے کے افراد کے لئے کافی تھا کہ وہ ان پنگوں پر ہونے والی پیش رفت جاننے کے لئے میرے دفتر کے باہر اکٹھے ہو جائیں جو میں ان کے ساتھ لے رکھے تھے۔

جب میں ان کے قریب سے گزرتا ہوا اپنے کمرے میں گیا تو بیک وقت انہوں نے اور خود میں نے ہوا میں ایک تبدیلی کی بُو محسوس کی۔ میں نے یہ تبدیلی اس لئے محسوس کی کیونکہ میں جانتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے اور انہوں نے اس لئے کہ میرے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی جسے وہ کوئی معنی نہ پہنا سکے۔ میرے اندر رونما ہونے والی اس تبدیلی نے انہیں چہ میگوئیاں کرنے پر مجبور کر دیا کیونکہ اچانک بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں سے لوگ گھبرا جاتے ہیں۔

میں اس لئے مسکرا رہا تھا کہ میں انہیں بالکل ایک نئے پس منظر میں دیکھ رہا تھا۔ میں نے انہیں ایک طویل عرصے تک اپنے مسائل کی جڑ سمجھ رکھا تھا‘ اس روز اچانک ہی وہ لوگ مجھے اپنے مسائل کا حل نظر آئے۔ ان میں سے ہر کوئی مجھے بے شمار خوبیوں کا مالک نظر آنے لگا۔ حتیٰ عبدالرشید بھلا صاحب سارا دن بیٹھے اُونگھا کرتے تھے مجھے بہت “کرنی” والے بزرگ نظر آئے۔

جب میں اپنے دفتر میں داخل ہوا تو میری سیکرٹری وینا نے محسوس کیا کہ میں ایک ایسا کام کرنا بھول گیا ہوں جو میں نے گذشتہ برسوں میں کبھی فراموش نہیں کیا تھا۔ میں اپنا دروازہ بند کرنا بھول گیا تھا۔ وہ ہکا بکا رہ گئی۔ ازراہ کرم نوٹ کریں کہ میں نے اپنے سارے عملے کو ایک لفظ بولے بناء حیران کر دیا تھا۔ جب میں نے چِلا کر وینا سے پوچھا کہ سب سے پہلے مجھے کون ملنا چاہتا ہے تو اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ اس نے پوچھا، ’’آپ کا مطلب ہے کہ آپ واقعی ان لوگوں سے ملنا چاہتے ہیں؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’انہیں ملنے کی اتنی شدید خواہش اس سے پہلے کبھی میرے من میں پیدا نہیں ہوئی بتاؤ سب سے پہلے کون ملنا چاہتا ہے؟‘‘ اسی لمحے میں نے اپنے سیمینار کے گرو کی ہدایات پر عمل کرتے ہوتے پہلا قدم اُٹھایا۔ ۔یعنی دوسروں کے دیئے ہوئے کام دھندوں سے نجات پائی۔ اس صبح میں اپنے عملے کے ایک ایک شخص سے ملا اور ان سب کے ساتھ میں نے ایک ہی وطیرہ اختیار کیا۔سب سے پہلے تو میں ان سے معذرت کرتا کہ میں نے ان کے کاموں کو اپنے پاس روکے رکھا اور دوسرے میں انہیں یہ یقین دلاتا کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔

پھر میں نے یکے بعد دیگرے مضبوطی سے اپنے ما تحتوں کے بندر ان ہی کے کندھوں پر رکھ دیئے اور خود انتہائی خوشی کے عالم میں کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر ان کو واپس جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ حالت یہ تھی کہ ان کی پُشت پر کندھوں کے درمیان اُن کی ذمہ داریاں لدھی نظر آرہی تھیں۔ بعد میں اپنے لوگوں سے ہر روز وہی سوال پوچھتا رہا جو وہ عرصہ دراز سے مجھ سے پوچھ رہے تھے۔ سنائو! اس کام کا کیا بنا؟ (یہ مینجروں کے پوچھنے کا انتہائی اہم سوال ہے۔ اگر کوئی منیجر سے یہی سوال کر رہا ہے تو یہ پنگا ہوگا۔

جب میرے عملے کا آخری فرد بھی میرے دفتر سے نکل گیا تو میں سکون سے سارے دن کے واقعات پر غور کرتا رہا ان میں سب سے نمایاں واقعہ یہ تھا کہ میرا دروازہ ایک تبدیلی کو خوش آمدید کہنے کے لئے کُھلا تھا اور نہ ہی کوئی بندر۔ اب مجھے فارغ وقت میسر تھا اور لوگ جب چاہیں مجھے مل سکتے تھے۔ ایک طویل عرصے کے بعد میرے پاس اپنے لوگوں کے لئے وقت تھا لیکن ان کے پاس میرے لئے وقت نہیں تھا وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں مصروف تھے۔ میں نے کتنی اہم چیز سیکھی تھی جتنا آپ اپنے ماتحتوں کی ذمہ داریاں اُٹھانے سے باز رہیں گے اتنا ہی آپ اپنے ماتحتوں کی راہنمائی کے لئے میسر ہوںگے۔

جب میں نے اپنے عملے کے تمام فرائض منصبی اور ذمہ داریاں اِنہیں لوٹا دِیں تو گویا میں پنگے بازی سے کوسوں دور ہوگیا۔ اس سب ہلے گلے کے قریباً دو دن بعد یہ نکتہ اتفاقاً میری سمجھ میں آیا۔ میں اپنے دفتر میں تھا دروازہ کُھلا ہوا تھا اور میں میز پر پائوں رکھ کر کچھ سوچ رہا تھا۔ سوچ یہ رہا تھا کہ کس طرح میں ایسے حالات پیدا کروں کہ میرے عملے کے افراد کو کام کرنے میں کسی قسم کی رکاوٹ پیش نہ آئے (حقیقی معنوں میں میں کام تو ان ہی لوگوں کے لئے کر رہا تھا لیکن ان کا کام نہیں کر رہا تھا)۔ اس دوران میرے عملے کے تمام افراداپنے کام دھندے میں لگے ہوئے تھے اور گزشتہ دو ایک دِنوں میں میں نے ان کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔ اِیمانداری کی بات تو یہ ہے کہ میں نے خود کو تَنہا محسوس کرنا شروع کر دیا تھا اور مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے کسی کو میری ضرورت ہی نہ ہو۔

پھر قسمت نے یاوری کی اور ایاز ایک مسئلے کے سلسلے میں مجھے ملنے کیلئے چلا آیا جب وہ میرے دفتر پہنچا تو اس نے نوٹ کیا کہ میرے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا ہے تاہم جہاں وہ کھڑا تھا وہاں سے وہ مجھے نہیں دیکھ سکتا تھا اس نے کبھی بھی میرے دروازے کو کُھلا نہیں پایا تھا سو وہ یہ سمجھ بیٹھا کہ میں کہیں باہر گیا ہوں گا۔ پس جب اس نے وینا سے پوچھا کہ میں کدھر ہوں تو اس نے جواب دیا ’’وہ اندر ہی بیٹھے ہیں۔‘‘ ایاز کو گویا ایک جھٹکا لگا اس نے ہکلاتے ہوئے پوچھا ’’مم….. میں انہیں کب مل سکتا ہوں؟‘‘ وینا نے جواب دیا ’’سیدھے اندر چلے جائو وہ کچھ بھی تو نہیں کررہے فارغ ہی بیٹھے ہیں۔

جب وہ اندر آیا تو مجھے محسوس ہوا کہ میں کس قدر اکیلا تھا سو میں نے اس کا گرم جوشی سے استقبال کیا ’’آئو ’’آئو بیٹھو نا‘ تم سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی‘ کیا خیال ہے ایک کپ کافی نہ ہو جائے؟ چلو ہم شروع سے بات کا آغاز کرتے ہیں تمہارے بیوی بچے کیسے ہیں؟ ایاز کے جواب سے مجھے اندازہ ہوا کہ موجودہ حالات میں غالباً اس قسم کی بے کار گفتگو کے لئے اس کے پاس وقت نہیں تھا اس نے سر کو جھٹکتے ہوئے جواب دیا ’’میرے پاس ان امور کے لئے وقت کہاں!‘‘ آج پہلی مرتبہ میرے پاس اس کے لئے وقت تھا جبکہ اس کے پاس میرے لئے وقت نہ تھا۔

اب ہر شخص کی طرح میرا عملہ بھی جانتا تھا کہ اگر باس کے پاس ان کے لئے وقت نہ ہو تو ایسے باس کے ساتھ کام کرنا کتنا اذیت ناک ہوتا ہے‘ پس اب میری کوشش ہوتی ہے کہ میرے پاس ان کے لئے زیادہ وقت ہوجبکہ ان کے پاس میرے لئے وقت نہ ہو اور اس میں کامیابی اسی صورت ممکن ہے کہ میں ان کے لئے اپنا دستیاب وقت بڑھا دوں اور ان کے پاس جو وقت میرے لئے بچا ہو اسے کم کر دوں۔ اس سارے سلسلے کو چیک کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ دوران گفتگو میں اس بات پر نظر رکھوں کہ وقت کے حوالے سے پہلے کون فکر مند ہوتا ہے‘ اگر وہ اس حوالے سے مجھ سے پہلے مضطرب ہو جاتے ہیں‘ تو یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ ان کا اپنی ذات پر انحصار بڑھ رہا ہے۔

نتیجہ ظاہر ہے اپنے عملے میں میری شہرت ایک ایسے منتظم کی حیثیت سے پھیل گئی ہے جس کے پاس فرصت ہی فرصت ہے‘ اب وہ جب چاہیں مجھے مل سکتے ہیں لیکن ان سے ملاقاتیں زیادہ طویل نہیں ہوتیں۔ میری ذات میں انقلابی تبدیلی کے بعد ماتحتوں میں پیدا ہونے والی یہ سب سے بڑی تبدیلی ہے۔

مزید برآں ایک دفعہ جب پیر کے روز میں نے اپنے عملے کو یہ سب پنگے لوٹا دیئے تو ان میں جیسے بجلیاں بھر گئیں۔ اب انہیں میرے ہاتھ پائوں ہلانے کا انتطار کرتے ہوئے کڑھنا نہیں پڑتا تھا‘ اب مجھ میں بھی احساس ندامت نہ تھا‘ مجھے اب ان کا کوئی ’’ادھار‘‘ نہیں دینا تھا۔چونکہ میں پہلے کی طرح پنگے لئے نہیں بیٹھا تھا، اب میں ان کے کاموں میں رکاوٹ نہیں بن رہا تھا۔ چند ہی گھنٹوں کے اندر میں نے بظاہر کام پر اپنے گرفت کو ڈھیلا کر دیا‘ اس طرح اب میرے عملے کو اس لئے میری طرف نہیں دیکھنا پڑتا تھا کہ میں کوئی قدم اُٹھائوں تو اُس کے بعد ہی وہ ہاتھ پائوں ہلائیں۔ اُن کی پلیٹ پر کافی کچھ تھا اور وہ اُس پر اختیار بھی رکھتے تھے۔

پھر ایک دن اچانک میاں عبدالعزیز کی کال آگئی۔ میری تازہ صورت حال جان کر وہ مطمئن ہوئے لیکن پھر انہوں نے ایک ایسی بات کردی کہ میرا “تر اہ” نکل گیا ۔ وہ کہنے لگے، آپ پھر سے ایک پھندے میں پھنستے ہو ئے نظر آرہے ہیں۔

!پنگا نہیں لینا سر جی

قسط9

ڈاکٹر صداقت علی

پھر میاں عبدالعزیز یوں گویا ہوئے، آپ ہوا کے گھوڑے پر سوار نظر آرہے ہیں، اور سرپٹ بھاگے جارہے ہیں، رکنے کا نام نہیں لے رہے، لیکن لگ رہا کہ آپ ہاتھوں میں باگیں نظر آرہی ہیں اور نا ہی آپ کے پائوں رکاب میں دکھائی دے رہے ہیں۔ جن ایگزیکٹوز کی مرضی کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا وہ عموماً اداروں کے لئے خطرہ بن جاتے ہیں اور جلد ہی ان کا کوئی نہ کوئی متبادل تلاش کر لیا جاتا ہے۔ لیکن وہ باس جو دوسروں کو کام کرنے کا موقعہ دیں اور کام پر حد سے زیادہ کنٹرول کے خواہش مند نہ ہوں وہ مر بھی جائیں تو انہیں کوئی یاد نہیں کرتا اور ایسے باس جو مر بھی جائیں تو انہیں کوئی یاد نہ کرے ان کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا‘ وہ انمول ہوتے ہیں۔ کیوں بھلا؟

میری جان میں جان آئی اور میں گہرا سانس لے کر بو لا، ایک منتظم کے طور پر آپ لوگوں سے بہترین کام اسی صورت لے سکتے ہیں جب وہ اپنے کاموں کی دیکھ بھال خود ہی کر رہے ہوں‘ اس طرح آپ کے پاس منصوبہ بندی‘ رابطوں‘ اختراعات‘ نئے عملے کی بھرتی اور اس نوع کے دوسرے اہم کاموں کے لئے وافروقت نکل آتا ہے اس سے آپ کا شعبہ مستقبل میں بھی اہم کارکردگی دکھا سکتا ہے۔

اللہ آپ کا بھلا کرے مجھے امید ہے آپ اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے، میاں عبدالعز یز دھیمے لہجے میں بو لے، دراصل آپ کو اس میں کچھ مزید رہنمائی کی ضرورت ہے جب پھر آپ اس کی ضرورت محسوس کریں تو بتا دیجئےگا میرے دھن بھاگ، آپ ہمیشہ مہربانی فرماتے ہیں، راہنمائی کے علاوہ عمدہ کھانا بھی کھلاتے ہیں آپ نے ماش کی دال بھنڈی اور کریلے کھانے کے بعد انہیں اچھا کھانا کہا تو مجھے بہت خوشی ہوئی، آپ نے پھلوں سبزیوں اور دالوں کے بارے میں جس طرح اپنے نظریات کو بدلا، اس سے میں بہت متاثر ہوا ہوں، جیتے رہیں، خوش رہیں فون رکھتے ہی اپنے کام میں مگن ہو گیا۔

آپ کے ساتھ مل کر دیکھتے ہیں کہ پیر ہی کے روز ہم ابھی تک نپٹائے جانے والے معاملات کو ایک ترتیب دے لیں۔ چونکہ میں سیمینار میں سیکھے ہوئے قوانین کے تحت لوگوں کو ان کے پنگے لوٹا چکا تھا مناسب ہوگا کہ ہم کاموں کو راہ راست پر رکھنے کے نظام کو دیکھیں، پنگے بازی پر قابو پانے کے پہلے قانون کے مطابق کسی باس اور اس کے ماتحت کے درمیان مکالمہ اس وقت تک ختم نہیں ہونا چاہئے جب تک کہ تمام اقدامات اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچ جائیں، یعنی بندروں کو قابو میں رکھا جائے۔ اس میں شامل ہے کہ آئندہ اقدامات کو واضح طور پر بیان کیا جائے۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ بندروں کو کسی کی ملکیت میں دے دیا جائے۔ یہاں بندروں سے مراد وہ چھوٹے بڑے اقدامات ہیں جو اہداف کے حصول کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔

تیسرے اصول کے مطابق ان اقدامات کی تکمیل کو یقینی بنانے کے لئے انشورنس پالیسی مرتب کر لی جائے جس میں ہر قسم کے خطرے کا سدباب کر لیا جائے۔

اصول نمبر 4 یہ ہے کہ پنگوں کو اپنے انجام تک پہنچانے کیلئے ملاقاتوں کا بندوبست، بندروں کی پیروی کے لئے وقت اور جگہ کا تعین کر لیا جائے۔ مزید برآںپنگوںکو حقیقی اہداف میں بدلنے کے لئے شفافیت کا اہتمام کر لیا جائے۔

پنگوں کو منظم کے قواعد و ضوابط کا مقصد یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنا لیا جائے کہ صحیح کام‘ صحیح وقت پر اور صحیح لوگوں کے ذریعے صحیح طریقے سے انجام پائیں۔

اگر آپ ماضی میں جھانک کر چند ایسی میٹنگز پر نظر دوڑائیں جو مسائل حل کرنے کے لئے منعقد کی گئی تھیں تو آپ کو بندروں کو منظم کرنے کے لئے یہ قوانین اشد ضروری محسوس ہوں گے۔ ان میں سے بیشتر میٹنگز کا انجام اس طرح ہوا ہوگا کہ کمرے میں موجود کسی بھی شخص نے اس بات پر اتفاق نہیں کیا ہوگا کہ آئندہ اقدامات کیا ہونے چاہیئں اور ان کا ذمہ دارکون ہوگا؟

ایسی میٹنگز میں اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جب کسی کو پتا ہی نہ ہو کہ آئندہ اقدام کیا ہوں گے تو پھر یہ اقدام کبھی اُٹھائے ہی نہیں جائیں گے۔ اگر یہ اقدام کسی کے ذمے نہیں لگائے جاتے تو پھر یہ ہر ایک کی ذمہ داری بن جاتے (بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ کسی کی بھی ذمہ داری نہیں بنتے) جس سے کچھ بھی نہ ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اگر آئندہ اقدام کسی کے ذمے تولگا دیئے جائیں لیکن تکمیل کا وقت طے نہ کیا جائے تو پھر کام کے التوامیں پڑ جانے کا اندیشہ ہوگا کیونکہ اکثر لوگ پہلے ہی ضروری کاموں میں الجھے ہوتے ہیں۔

پنگے بازی کا تدارک کرنے کے اصول صرف ان بندروں پر لاگو ہوتے ہیں جن کا کوئی نہ کوئی جواز بنتا ہو‘ کچھ پنگے تو بلا جواز ہوتے ہیں، ان کا تو ویسے ہی قصہ پاک کردینا چاہیے، مثال کے طور پر برطانیہ کی سول سروس میں ایک عہدہ ہے جس پر تعینات شخص کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ڈاور کی برف پوش چوٹیوں پر کھڑا رہے اور جونہی اسے نپولین کی فوجیں آتی ہوئی دکھائیں دیں وہ گھنٹیاں بجانی شروع کر دے۔ اس عُہدے پر ابھی تک بھرتی کی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی ایسے بہت سے دفاتر ہیں جن میں کوئی کام دھندہ نہیں ہوتا لیکن وہ دفاتر بند نہیں کئے جاتے، بہت سے ایسے گیسٹ ہاوسز ہیں جہاں اب کوئی صاحب بہادر قیام نہیں کرتا لیکن اُن کا انتظام و انصرام جاری و ساری ہے۔ یہ سب کام دھاندے اور اقدام بندروں کے زمرے میں آتے ہیں۔ پس آپ اپنے آپ سے پوچھیں ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ اگر کوئی معقول جواب نہ ملے تو اسے نیست و نابود کردیں۔ جن کاموں کو کرنے کی سرے سے کوئی ضرورت نہیں آپ دھڑا دھڑ وہی کام کیوں کرتے رہیں؟

پنگوں کو منظم کرنے کے قوانین کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے یہ مناسب ہوگا کہ پہلے ہم بندر کی تعریف کو ذہن نشین کر لیں‘ یاد رہے کہ بندر کسی مسئلے یا منصوبے کو نہیں کہتے بلکہ بندر کسی منصوبے میں اگلے قدم کو کہتے ہیں جو کسی اور کے اُٹھانے کا ہو اور اسے اُٹھا کوئی اور رہا ہو۔ جو قدم اُٹھانے کی ضرورت ہی نہ ہو، اُس سے بڑا پنگا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔ بندروں کی کچھ مثالیں یہ ہو سکتی ہیں:اکائونٹ کے شعبے سے حتمی قیمتوں کی تفصیلات وصول کرنا‘ مسئلے پر مزید غور کرنا‘ سفارش مرتب کرنا اور سمجھوتے پر دستخط کرناوغیرہ وغیرہ۔

پنگوں کا قلع قمع کا قانون 1 کہتا ہے
باس اور ماتحت کو اس وقت تک ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونا چاہئے جب تک اگلے اقدام نہ طے کر لئے جائیں۔

.اس قانون سے وابستہ رہنے کے تین فوائد ہیں
اول: اگر میرے ملازمین کو پیشگی اس بات کا علم ہو کہ ان کے اور میرے درمیان گفتگو اس وقت تک جاری رہے گی جب تک “اگلے اقدام” نہ طے پا جائیں تو وہ ملاقات سے پہلے زیادہ احتیاط سے منصوبہ بندی کر کے آئیں گے۔ میری باس سرجن شہناز سعید نے یہ سبق بہت عرصہ قبل مجھے پڑھایا تھا۔

ایک روز اپنے فرائض منصبی کے حوالے سے میں نے ان کے بے تحاشہ کان کھائے تو وہ کہنے لگیں “تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ تمہیں علم ہی نہیں کہ کیا کیا جائے؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں واقعی نہیں جانتا‘ انہوں نے جواب دیا میں بھی نہیں جانتی کہ تمہیں کیا کرنا چاہیے؟ اس طرح ہم دو ایسے انسان ہیں جنہیں یہ علم نہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور صورت حال یہ ہے کہ ہم دونوں سرِدست ایک ہی کام میں یہ طولیٰ رکھے ہوئے ہیں وہ ہے لاعلمی میں اوج کمال، اب مشکل یہ ہے کہ ہسپتال کے حکام ایک کام کے لئے ہم میں سے صرف ایک ہی کو برداشت کر سکتے ہیں۔

اس طرح وہ مجھے احساس دلانا چاہتی تھیں کہ آئندہ میں ان کے پاس جو بھی مسئلہ لے کر آئوں‘ اس کے ساتھ ہی اس مسئلے کے حوالے سے “اگلے قدم” کے لئے چند پر مغز تجاویز بھی لائوں۔ اس طرح قبل از وقت غور و فکر کرنے سے فائدہ یہ ہوگا کہ ہم سرِ راہ ہال میں سوچ و بچار کرنے سے بچ جائیں گے۔

قانون 1 کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ یہ ہر صورت حال میں میرے ماتحتوں کو حرکت پر مجبور کرتا ہے‘ اگر کوئی بھی شخص “اگلا قدم” نہ اٹھائے تو اکثر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکتی اور یہ چیز کئی موقعوں پر جمود پیدا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر جب کوئی مسئلہ یا کوئی موقع پہلی مرتبہ پیدا ہوتا ہے تو اکثر بہترین حل ایک دم سامنے نہیں آتا اور نہ ہی اس کے ممکنہ خطرات ایک دم سے عیاں ہوتے ہیں‘ ایسی صورت میں (خاص طور پر اگر کافی کچھ دائو پر لگا ہوتو) باس کو تر غیب ملتی ہے کہ وہ اپنے ذہنی تحفظ کیلئے خود ہی بندر کو اچک لےیعنی پنگا لے لےاور بولے
مجھے ذرا اس مسئلے پر غور کر لینے دو پھر میں تم سے بات کروں گا۔

جب تک باس اس پر اگلا قدم نہ اٹھالے اس سے سٹاف ممبرز اور سارے کا سارا منصوبہ جامد ہو کر رہ جاتا ہے لیکن دوسری طرف اگر اگلے اقدام واضح طور پر طے کر لئے جائیں تو اکثر یہ بات سامنے آتی ہے کہ ماتحت ان میں سے بیشتر اقدام کی اچھی طرح پیروی کر سکتا ہے‘ مثال کے طور پر مسئلے کو گوگل کرنا اور کچھ ممکنہ اقدامات کو جاننا یا تجربہ کار لوگوں سے مشاورت کرنا اور نئی معلومات کی روشنی میں سفارشات مرتب کرنا۔ اس طرح باس کے عملی قدم اٹھانے تک صورت حال جوں کی توں نہیں رہتی۔

پہلے قانون کا تیسرا اور غالباً سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اگلے قدم کو طے کر لینے سے پنگے کے حقیقی مالک میں ذوق و شوق بہت زوروں پر ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو بندر کو زیر بحث لانے سے اگلے اقدام واضح ہو جاتے ہیں اور جتنا کوئی یہ واضح طور پر سمجھ لے کہ اسے کیا کرنا ہے، اگلے اقدام اٹھانے کے لئے اتنی ہی توانائی اس میں اُمڈ آتی ہے۔ ذرا سوچئے تو سہی جب کسی کام کے طریقہ کار کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے تو آپ اس وقت اگلا قدم اٹھاتے ہوئے کتنا ہچکچاتے ہیں؟

دوم‘ اگلے قدم طے کرنے سے انسان میں بے پناہ جوش پیدا ہوجاتا ہے جو منصوبے پر ابتدائی کام کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے‘ اکثر سب سے مشکل کام یہی ہوتا ہے‘ پہلا قدم اٹھا لینے کے بعد کام نسبتاً آسان لگتا ہے۔

سوم‘ اگلے اقدام طے کرنے سے منصوبہ چھوٹے چھوٹے مرحلوں میں تقسیم ہوجاتا ہے‘ ان چھوٹے مرحلوں کوطے کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے (جیسے ایک مکمل منصوبے کا فکر کرتے رہنے کی نسبت محض ایک فون کرنا)۔

چہارم‘ اگلے اقدام طے کرنے سے انسان میں یہ رجحان پیدا ہوجاتا ہے کہ حسبِ ضرورت کبھی پورے منصوبے اور کبھی اگلے قدم پر توجہ مبذول کرے‘ اگر گول یعنی پورے منصوبے کو مکمل کرنا اعصابی دبائو پیدا کرتا ہے تو اگلا قدم یعنی محض ایک ٹیلی فون اتنے اعصابی دبائو کا حامل نہیں ہوگا‘ تاہم اگر آئندہ تمام اقدام کے بارے میںغور کرناحوصلہ شکن ہو تو منزل کے حصول کا تصور طمانیت دیتا ہے۔

!پنگا نہیں لینا سر جی

قسط10

ڈاکٹر صداقت علی

بہتر ہے کہ پنگا نہ لینے کے پہلے اصول کو آپ پر واضح کرنے کے لئے میں دو ایک مثالیں اپنے ذاتی تجربے سے دوں۔ مثال کے طور پر ذرا پنگے کی تعریف کو دوہرائیے: پنگا اُس کام کو کہتے ہیں جو آپ کے کرنے کا نہیں تھا لیکن آپ نے کرنے کا  ارادہ یا وعدہ کر لیا۔

یہ تعریف پنگے کی ملکیت کے بارے میں کچھ نہیں کہتی‘ سو عین ممکن ہے ایک شخص پورے منصوبے پر کام کر رہا ہو اور دوسرا شخص محض اگلا قدم اٹھائے۔ میں اکثر اس حقیقت سے اس طرح فائدہ اٹھاتا ہوں کہ میں اپنے عملے کے ارکان سے پوچھتا ہوں کہ اپنے مختلف منصوبوں پر میں کون سے اگلے اقدام اٹھائوں؟ اس سے ان کو ایک ’’اگلا قدم‘‘ اٹھانے کا موقع ملتا ہے، چاہے وہ میرے منصوبے کو پایا تکمیل تک پہنچانے کے لئے ایک تجویز پر ہی مبنی کیوں نہ ہو۔

مشترکہ جدوجہد سے نہ صرف یہ کہ میرے اگلے قدم کا معیار بہتر ہوتا ہے بلکہ ایک سے بھلے دو‘ ایک ایک اور دو گیارہ! اس سے میرے عملے کے افراد کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور انہیں میری مشکلات کا اندازہ بھی ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مجھے اپنے جانشین تیار کرنے میں بھی مدد ملتی ہے (اگر میں ترقی کا خواہاں ہوں تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے)۔

قانون 1 کی دوسری مثال اس وقت سامنے آتی ہے جب میں اور میرا کوئی ساتھی کسی مسئلے پر بحث کر رہے ہوں اور ہم ابھی مسئلے کو وضاحت سے بیان کر پائے ہوں نہ اگلے قدم طے کیے ہوں اور وقت ہاتھ سے نکلتا ہوا محسوس ہو۔ وقت کی کمی کا دوسرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگلا قدم اب یہ ہے کہ پنگاہ ہر گز نہ لیا جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تک اس مسئلے پر دوبارہ تبادلہ خیالات شروع نہیں ہوتا تب تک اس مسئلے کی ذمہ داری کس پر رہے؟ پس میں اس شخص سے کہتا ہوں ’’کیوں نہ ہم اس مسئلے کا حل نکالنے کیلئے کل پھر سے بات چیت کا آغاز کریں‘ دریں اثناء آپ اس مسئلے پر غور جاری رکھیں‘ ہو سکتا ہے آپ ہی اس مسئلے کا کوئی حل نکال لیں…. اور مجھے یقین ہے کہ آپ ضرور ایسا کر گزریں گے۔

ان اگلے دو دنوں میں غالباً میں اس مسئلے کا کچھ بھی نہ کر پاتا اور یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ میرے عملے کا مذکورہ فرد بھی شاید اس پر کوئی کار گزاری ن دکھائے لیکن اگر اس مسئلے کی قسمت میں خرابی ہی لکھی ہے کہ یہ خرابی میری بجائے اس کے بریف کیس میں واقع ہو‘ کیوں؟ اس لئے کہ بریف کیس میں بہت اندھیرا ہوتا ہے اور جو مسئلہ ایک پھڈے کی شکل اختیار کر جائے اُسے یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ کس کے بریف کیس میں ہے؟

اور یہ بات بھی ہے کہ اگر پھڈا میرے ماتحت کے بریف کیس میں ہے تو یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ کچھ نہ کچھ تو ہو جائے گا اور اگر یہ ’’کچھ‘‘ نہ ہونے کے برابر ہو تو یہ اس سے بدر جہا بہتر ہے کہ اس اثناء میں وہ میرے بریف کیس میں ہوتا جبکہ میں بھی اس دوران کچھ نہ کرتا۔ مزید برآں اگر ماتحت اس کام کو غلط طریقے سے کر دے تو اس سے بھی سبق سیکھا جا سکتا ہے کیونکہ کسی بھی کام کو غلط کرنے کے چند ہی غلط طریقے ہوتے ہیں اور آپ کا ماتحت ان میں ایک طریقہ پہلے ہی آزما کر رد کر چکا ہے۔

اب ہم اگلے قدم کی قدروقیمت واضح کرنے کے لئے ایک آخری مثال پر نظر ڈالتے ہیں۔ فرض کریں کہ آپ اپنے عملے کے کسی شخص سے کسی مسئلے پر گفتگو کرتے ہیں اور آپ دونوں کے درمیان مکالمے کا اختتام اس طرح ہوتا ہے کہ آپ اس سے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے مشورہ مانگتے ہیں اور آپ کا ماتحت آپ سے مہلت مانگتا ہے، آپ انتہائی کرم کے ساتھ مہلت دیتے ہیں اور میٹنگ ختم ہوجاتی ہے۔ جب آپ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں تو آپ زیر لب مسکراتے ہیں کیونکہ اب اگلا قدم اسے اٹھانا ہے جو ایک تجویز کی تشکیل ہوسکتا ہے لیکن اس وقت آپ کی خوشی ہوا ہو جاتی ہے جب نو صفحات پر مشتمل ایک تجویز آپ کی میز پر پہنچتی ہے۔ اب کچھ عدد اگلے قدم آپ کے حصے میں آگئے‘ یعنی اسے پڑھنا‘ اس پر غور کرنا، فیصلہ کرنا کہ کیا کیا جائے اور پھر اس فیصلے پر عمل درآمد وغیرہ وغیرہ۔ اب کارکن کا کِردار آپ کے حصے میں آ گیا اور نگران کا کِردار اس کے حصے میں۔

اس سارے پس منظر کا تصور کرتے ہوئے آپ سمجھ سکتے ہیں مسئلوں کو سلجھانے اور پنگے نہ لینے کے اس دھندے میں شطرنج کی طرح آگے کی کئی چالیں سوچ رکھنا بھی نفع بخش ثابت ہوتا ہے۔ میں نے پنگوں سے بچنے کا ایک اور طریقہ بھی نکالا ہے۔ میں اپنے افراد سے کہتا ہوں وہ مجھے یادداشتیں ارسال کرنے کی بجائے انہیں خود میرے پاس لے آیا کریں‘ کیوں؟

اس طرح جب کوئی شخص یادداشت لئے میرے دفتر آتا ہے تو میں اسے کہتا ہوں کہ وہ مجھے پڑھ کر سنائے (ان میں سے بیشتر مجھے بتاتے ہیں کہ جتنا وقت اس یاداشت کو پڑھنے میں لگے گا اس سے ایک تہائی وقت میں وہ یہ مجھے زبانی سمجھا سکتے ہیں۔ اس طرح مجھے یہ اطمینان اور خوشی مل جاتی ہے کہ چلو میں نے بقیہ دو تہائی وقت تو بچا لیا۔

خواہ وہ مجھے پڑھ کر سنائیں یا زبانی بتائیں اس دوران مجھے اتنا وقت مل جاتا ہے کہ میں کچھ سوچ بچار کرسکوں‘ ان کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لے سکوں اور ان سے سوالات پوچھ سکوں۔ اسے تنہائی میں پڑھنے کی نسبت‘ اس طرح میں معاملے کو تھوڑے وقت میں زیادہ سمجھ لیتا ہوں کیونکہ یادداشت بہرحال الفاظ پرمشتمل ہوتی ہے اور اس کے کسی بھی لفظ سے غلط مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں کاغذ پر لکھی ہوئی تحریر میں تمام مدعا نہیں ہوتا اور جب مدعی میرے سامنے موجود ہو تو تحریر کے پیچھے چھپے ہوئے خیالات کے بارے میں وہ میرے کسی بھی ممکنہ سوال کا جواب دے سکتا ہے۔اور مدعی لاکھ برا چاہے تو بھی کوئی بہت زیادہ برا نہیں چاہ سکتا۔

قانون 1 کو نافذ کرنے کے بے شمار طریقے ہیں لیکن مجھے یقین ہے اب تک آپ اصل ’’کُنڈھی‘‘ سمجھ چکے ہوں گے چنانچہ‘ آئیے! ہم اگلے قانون کی طرف چلتے ہیں جس کا مقصد پنگوں کو ان کے اصل مالکان کے سپرد کرنا ہے۔

کام کاج کو نظم و ضبط میں لانے کا قانون 2 کہتا ہے: باس اور ماتحت کے درمیان سلسلہ کلام اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک مسئلہ یا اگلا قدم کسی ایک کی ملکیت میں نہ آ جائے۔ اگر مسئلہ یا اگلا قدم غلط ہاتھوں میں چلا جائے تو وہ پنگا بن جا تا ہے۔

یہ اصول ہزاروں سال کے تجربے کی عکاسی کرتا ہے کہ انسان اپنی ملکیتی اشیاء کو زیادہ حفاظت سے رکھتا ہے‘ مزید برآں اگر مسئلے یا اگلے قدم کی ملکیت طے نہ ہو تو پھر کوئی بھی صحیح معنوں میں اس کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں ہوتا اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بعد میں کسی کو بھی مورودِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

پس ادارے کے قابل قدر منصوبوں کی فلاح و بہبود کیلئے ضروری ہے کہ کوئی نہ کوئی ان کا مالک ضرور ہو‘ یہی وجہ ہے کہ جب میں اور میرے عملے کے افراد کام کے حوالے سے تبادلہ خیالات کر رہے ہوں تو اس دوران جنم لینے والا ہر اگلا قدم یا منصوبہ گفتگو کے اختتام سے پہلے کسی نہ کسی کے سپرد ہو جانا ضروری ہے۔

لیکن کون سی ذمہ داری کس کے پاس جانا چاہیے؟ میں نے یہ سیکھا ہے کہ ہر ذمہ داری سے ممکنہ حد تک ادارے میں نچلی سطح پر نپٹنا چاہیے بشرطی  منصوبہ کی جزوی یا کلی فلاح و بہبود کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔

ذمہ داریوں کو ادارے کی سب سے نچلی سطح پر دھکیلنے کا مطلب ذمہ داریوں سے فرار ہرگز نہیں۔ کچھ لوگ یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ شاید ذمہ داریوں کو جمعہ کی نماز میں چندے کی چادر کی طرح آگے کھسکایا جا رہا ہے‘ دراصل ایسا کرنے کی بڑی ہی جائز وجوہ ہیں (1) کام کاج کی بہتر بجاآوری کے لئے میرے عملے کے پاس مشترکہ طور پر میری نسبت زیادہ وقت‘ طاقت اور علم ہوتا ہے (تاہم کئی مینجروں کو وہم ہوتا ہے کہ وہ ہر فن مولا اور اپنے عملے سے بڑھ کر ہیں)۔ (2) عملے کے افراد میری نسبت کام کے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور اس طرح وہ کام کاج اور کلائینٹس کی دیکھ بھال مجھ سے زیادہ کر سکتے ہیں اور (3) پنگے لینے سے پرہیز ہی واحد لائح عمل ہے جس سے میں اپنا صوابدیدی وقت بچا سکتا ہوں۔

نتیجتاً جب سے مجھ میں یہ تبدیلی واقع ہوئی ہے میں نے ایک خاص وطیرہ اختیار کر لیا ہے۔ میں اپنے پاس صرف وہی ذمہ داری رکھتا ہوں جن کی نگہداشت صرف میں ہی کر سکتا ہوں۔ ۔بقیہ تمام ذمہ داریاں میرے عملے کے حصے میں آتی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ میرا عملہ بھی ایک حد تک ہی ذمہ داریاں اچھی طرح سنبھال سکتا ہے‘ پس میں بھی زیادہ محنت کرتا ہوں تاکہ وہ لوگ اپنے آپ کو زیر بار نہ سمجھنے لگیں (بشرطیکہ وہ لوگ ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے تجاویز دیتے رہیں) تجربہ شاہد ہے کہ میرے عملے کے افراد اپنی توقعات سے زیادہ حتٰی کہ کئی دفعہ تو وہ میری توقعات سے بھی بڑھ کر کارکردگی دکھا دیتے ہیں۔

ان سطور کو پڑھتے وقت اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ ذمہ داریوں کو سب سے نچلی سطح پر دھکیلنے کا معاملہ کہنے کی حد تک آسان لیکن عملی طور پر ناکوں چنے چبوانے والا ہے تو میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔ چونکہ میں خود دیوانگی کی حد تک پنگے لینے کا شوقین تھا اور ابھی حال ہی میں سدھرا ہوں اس لئے کسی بھی دوسرے شخص کی طرح میں بھی اس حقیقت سے واقف ہوں کہ کچھ زبردست غیر مرئی طاقتیں پنگے بازی کو پروان چڑھاتی ہیں۔ ماتحتوں کو یہ شوق ہوتا ہے کہ ہر ذمہ داری کے ہاتھ پیلے کر دیں اور وہ ہر کام کا سہرا باس کے سر باندھنے کا خبط رکھتے ہیں۔ دوسری طرف ہر باس فٹ بال کے کھلاڑی کی طرح بال کو اپنے ہی قدموں میں رکھنا چاہتا ہے تا کہ گول ہونے کی صورت میں ہیرو قرار پائے۔

!پنگا نہیں لینا سر جی

قسط11

ڈاکٹر صداقت علی

ماضی پر ایک گہری نظر مجھ پر یہ بات واضح کرتی ہے کہ کئی فطری وجوہ کی بنا پر بندر اوپر کی طرف ہی لپکتے ہیں۔ میرے معاملے میں یہ میری اپنی نفسیاتی کمزوریاں تھیں جو کسی مقناطیس کی طرح ذمہ داریوں کو اوپر جانب کھینچ رہی تھیں جیسے کیلے کے درخت میں کیلے اوپر کو کھنچے چلے آتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ میں راہنمائی کی نسبت اپنے عملے کا کام خود کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا۔ آخرباس بننے سے پہلے میں اسی نوعیت کا کام تو کیا کرتا تھا اور میں اس کام میں مہارت رکھتا تھا‘ میری ترقی کی وجہ بھی یہی تھی- پس ان کا کام کرنے سے میں ان دشوار کاموں سے بچ جاتا تھا جو انتظامی امور کا خاصہ ہیں (اس عمل کو اکثر بوڑھے طوطوں کی بیماری بھی کہا جاتا ہے)؛ علاوہ ازیں جب میں ماتحتوں کا کام کرتا تھا تو میرے عملے کے افراد کو موقع ملتا تھا کہ ’’خلیفہ جی کو خود اکھاڑے میں دائو پیچ آزماتے ہوئے دیکھیں اور واہ واہ کریں۔

تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر مجھے اپنے ماتحتوں کے کام پکڑنے کی تمام وجوہ کا علم ہوتا‘ پھر بھی میرا خیال ہے کہ میں اس وقت انہیں تسلیم نہ کرتا۔ مجھے اب احساس ہوتا ہے کہ پنگے لینے کے لئے میں نے بے شمار جواز گھڑ رکھے تھے (جو کہ بظاہر ذہانت کے معیار پر زبردست نظر آتے تھے اور میری انا کو تسکین پہنچاتے تھے تاہم جو کام میں کرتا تھا ان کا میرے فرائض منصبی سے دور پار کا تعلق بھی نہیں ہوتا تھا)- کیا آپ نے مندرجہ ذیل جملوں میں سے کوئی سنا ہے؟ ’’اگر آپ اسے صحیح طرح کرنا چاہتے ہیں تو پھر اسے خود کریں‘‘۔ ’’میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ اس مسلےمیں میرا دخل رہے۔‘‘ دوسروں کو کام تفویض کرنے کی بجائے خود کام کرنا آسان ہے۔‘‘ میں اپنے لوگوں کو وہ کام نہیں کہہ سکتا جو میں خود نہیں کر نا چاہتا۔

ذمہ داریوں کو غلط مالکان تک صرف اندرونی نفسیاتی کمزوریاں ہی نہیں پہنچاتیں بلکہ اداروں کی پالیسیاں بھی اس کا باعث بنتی ہیں‘ مثال کے طور پر بعض کمپنیوں کا نکتہ نظر یہ ہے کہ اگر معیار کی ذمہ داری مصنوعات بنانے والوں سے چھین کر معائنہ کرنے والوں کو دے دی جائے تو یہ غلط ہوگا؛ ان کا کہنا ہے کہ اشیاء کا جو معیار اس طرح حاصل کیا جاتاہے وہ بھی نقائص سے پاک نہیں ہوتا۔ اگر اس نوع کے نفسیاتی اور تنظیمی اثرات کو مدِنظر رکھا جائے تو یہی بات عیاں ہوتی ہے کہ ذمہ داریوں کو ان کے صحیح مالکان تک پہنچانے کے لئے ہنر اور نظم و ضبط کا امتزاج انتہائی ضروری ہے‘ خاص طور پر نظم و ضبط کا، کیونکہ نظم و ضبط کے بغیر ہنر فضول ہے۔ ایسا نہ کرنے سے ہصرف پنگے بازی کو ہی فروغ ملتا ہے۔

مینجمنٹ کے اس مبینہ تضاد پر قابو پانے کے لئے زبردست نظم و ضبط کی ضرورت ہوتی ہے۔بعض اوقات جب آپ اپنے لوگوں سے بہترین نتائج کا تقاضہ کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کو کچھ مدافعت کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ بہترین نتائج کے لئے زبردست محنت اور مہارت ضروری ہے یعنی ہارڈ ورک اور سمارٹ ورک دونوں ایک ساتھ- دوسری طرف اگر آپ اپنے ماتحتوں سے ذرا کم معیار پر سمجھوتہ کر لیں تو بعض اوقات وہ زیادہ مدافعت نہیں کرتے۔ پس بعض اوقات ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ کم معیار کا کام کرنے کے ہی اہل ہیں۔ اس کھلے تضاد کے پس پردہ محرکات ذمہ داریوں کو ان کے اصل مالکان کے سپرد کرنے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ ذمہ دارسے نپٹنے اور اسے ذمہ داری کو سنبھالنے پر مجبور کرنے کے بجائے بعض اوقات پنگا لے کر مسئلہ حل کرنا بدر جہاں آسان نظر آتا ہے لیکن ہوشیار رہئیے‘ جیسا کہ عظیم مینجروں اور رہنمائوں نے ہمیں سکھایا ہے یہ آسانی صرف ایک سراب ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں‘ ذمہ داریوں کو ان کے جائز مالکان کے پاس ہی ہونا چاہیے۔ پنگا نہیں لینے کا سر جی۔

ہر دلعزیز راہنما یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ بظاہر مدافعت کے باوجود لوگ آخر کار ان کی دل سے قدر کرتے ہیں‘ حتٰی کہ ان سے محبت کرنے لگتے ہیں‘ بشرطیکہ وہ ان کی بہترین صلاحتیں ابھارنے میں مدد کریں۔ اپنے اس نظرئیے کو مضبوط بنانے کے لئے ذرا پلٹ کر اپنے سکول کے زمانے کو یاد کیجئے‘ آپ انتہائی عقیدت کے ساتھ کن اساتذہ کو یاد کرتے ہیں؟ میں تو انہیں یاد رکھتا ہوں جو مجھے اپنی پوری صلاحتیں استعمال کرنے پر مجبور کرتے تھے۔ اور کیا میں ان لوگوں کی طرف سے پیدا شدہ دبائو کو رد کرنے کی کوششیں کرتا تھا؟ بعض اوقات تو میرا خیال ہے کہ میں ان سے نفرت کرنے لگتا (میرا خیال ہے کہ کئی دفعہ تو میں ان کے مرنے کی دعائیں بھی مانگتا تھا)۔

لیکن بہرحال میں ان کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرتا تھا کیونکہ اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں میں بہت اچھی طرح جانتا تھا کہ ان کے دل میں صرف میری بھلائی ہے‘ ان میں سے بعض کو تو میں اب یاد بھی نہیں ہو ںگا لیکن بہرحال میں دل کی دل میں ان کی عزت بہت بڑھ چڑھ کر کرتاہوں؛ سچ تو یہ ہے کہ بعض اوقات میں ان لوگوں کے لئے اپنے دل میں رنج محسوس کرتا ہوں جنہوں نے مجھے اپنی زندگی کا ایک حصہ ضائع کرنے دیا خواہ ایسا میری اپنی ہی غلطی سے ہوا۔

میں اپنے آپ سے اور اپنے ماتحتوں سے زبردست کارکردگی کا خواہاں ہوں۔ خاص طور پر جب میں انہیں اہلیت کی آخری حدوں تک لے جانا چاہتا ہوں تو مجھے مدافعت کا سامنا کرنا پرتا ہے‘ ایسے میں میں اپنے ماتحتوں کی ’’داد فریاد‘‘ سنتا ہوں لیکن ان موقعوں پر ذہن میں اپنے اساتذہ اورکچھ جانے پہچانے عظیم مینجروں کی مثالیں ضرور یاد رکھتا ہوں۔ جب ماتحت مدافعت کرتے ہیں تو مجھے اس کسان کی کہانی یاد آتی ہے جس کو اپنے بیٹوں کے ساتھ مل کر انتہائی محنت کرتے دیکھ کر پڑوسی نے پوچھا تھا کہ تم اپنے بیٹوں کو محض مکئی کی افزائش کے لئے کیوں ہلکان کر رہے ہو؟ تو اس نے جواب دیا تھا کہ میں مکئی کی افزائش نہیں کر رہا‘ میں تو بیٹوں کی افزائش کررہا ہوں‘ یادرکھیں۔

لوگوں کو ذمہ دار بنانے کا صرف ایک طریقہ ہے‘ انہیں ذمہ داریاں دے دیں۔

!پنگا نہیں لینا سر جی

قسط12

ڈاکٹر صداقت علی

اب جب کہ آپ کو کچھ اندازہ ہو گیا ہوگا کہ ذمہ داریوں کو ان کے صحیح مالکان کے حوالے کرنے کے لئے کس قسم کا ڈسپلن چاہیے‘ میں چاہوں گا کہ آپ کو کچھ ایسے تجربات سے آگاہ کروں جن سے آپ کو کام کاج میں نظم و ضبط کے دوسرے قانون پر عمل پیرا ہونے میں مدد ملے۔

ان باتوں کو سیکھنے سے پہلے میرے ماتحتوں میں سے ایک مسٹرگوہر نایاب لاجواب ’’پنگافیکٹری‘‘ کی حیثیت رکھتا تھا. جب کبھی وہ مجھے نظر آتا، مین ہال میں کیفیٹیریا میں، لفٹ میں یا پارگنگ لاٹ میں ___ وہ میری طرف لپکتا‘ ہماری گفتگو کا آغاز اس جملے سے ہوا کرتا ’’جناب ہمیں ایک چیلنج درپیش ہے‘‘ اور یقینی طور پر میں آگے بڑھ کر وہ پنگالے لیا کر تا تھا، حالانکہ وہ میرے کرنے کا کا م نہیں ہو تا تھا۔ یہ کا م اس کے اپنے فرائض منصبی سے تعلق رکھتا تھا۔ اب میں یہ سیکھ چکا ہوں کہ گوہر نایاب کے پنگوں کی نگہداشت اور ’’سیوا‘‘ سے کیسے بچنا ہے؟ میں نے بچائو کا ایک ایسا ردِعمل بنایا ہے جو دورانِ گفتگو لفظ ’’ہم‘‘ آتے ہی متحرک ہو جاتا ہے۔ جب بھی میں یہ جملہ سنتا ہوں کہ ’’ہمیں ایک مسئلہ درپیش ہے‘‘ تو چشم تصور میں مجھے ایک ایسا بندر دکھائی دیتا ہے جس کی ایک ٹانگ میرے کندھے پر ہوتی ہے اور دوسری گوہر نایاب کے کندھے پر۔ بندر کی اس پوزیشن سے مجھے خوف محسوس ہونے لگتا ہے کہ کہیں یہ بندر دونوں ٹانگیں میرے کندھوں پر نہ جما دے اور اس طرح میں کسی اورکی ذمہ داری نہ اٹھا لوں‘ یہ تصوراتی خاکہ خود بخود میرے اعصابی نظام میں جوابی تحریک پیدا کردیتا ہے اور میں پنگا لینے سے بچ جا تا ہوں ۔

میں گوہر نایاب سے کہتا ہوں’’ ہمیں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے اور نہ ہمیں کوئی مسئلہ درپیش ہو سکتا ہے‘مجھے یقین ہے کہ مسئلہ تو ضرور ہے لیکن یہ ہمارا نہیں‘یہ تمہارا ہے یا پھر میرا‘ ہمارا سب سے پہلا فرض ہے کہ اپنی گفتگو میں انشاء پردازی کی طرف توجہ دیں اور یہ معلوم کریں کہ یہ مسئلہ کس کا ہے؟ اگر یہ مسئلہ میرا ثابت ہوتا ہے تو مجھے امید ہے کہ تم اس میں میری مدد کرو گے ‘اگر یہ تمہارا مسئلہ نکلتا ہے تو پھر میں تمہاری مدد مندرجہ ذیل شرط پر کرنے کو تیار ہوں: تمہاری مدد کرتے ہوئے کسی بھی لمحے تمہارا مسئلہ میرا مسئلہ نہیں بننا چاہیے کیونکہ جونہی تمہارا مسئلہ میرا مسئلہ بنے گا تو تمہیں مسئلہ درپیش نہیں ہوگا اور میں ایسے شخص کی مدد نہیں کر سکتا جسے کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو۔ جتنی دیر میں میں اپنی مختصر سی تقریر ختم کرتا ہوں تو وہ سَر پیٹ کر رہ جاتا ہے کہ آخر اسے یہ مسئلہ مجھ تک لانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ وہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ میری رام لیلہ سننے سے کہیں بہتر ہوگا کہ وہ خود ہی یہ مسئلہ حل کر لے‘تاہم جب وہ اس ابتدائی جھٹکے کے اثرات سے نکلتا ہے تو ہم اس مسئلے کو زیر بحث لاتے ہیں۔ پھر ہم ’’اگلے قدموں‘‘ پر اتفاق کرتے ہیں‘ یہ اقدام جس حد تک ممکن ہو میں اسے دے دیتا ہوں اور جو جائز طور پر میرے حصے میں آئیں انہیں میں اپنے پاس رکھتا ہوں۔

اس عمل سے ’’پنگوں کی فیکٹری‘‘ یعنی گوہر نایاب کو پتا چل گیا کہ مسئلہ کسی ایک شخص کی ہی ملکیت ہو سکتا ہے اور جب تک حالات اس کے برعکس ثابت نہ کردیںا کوئی دوسرا آگے بڑھ کر پنگا نہ لے لے‘مسئلہ خود اس کی ملکیت رہتا ہے اور اگر کوئی اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوتو یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری بھی اسی پر عائد ہوتی ہے دوسرا کوئی اور کون ہے جس کی یہ ذمہ داری ہوسکتی ہے۔ اگر یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری میں اٹھاتا ہوں تو پھر یہ ایک اور پنگا لینے کے مترادف ہوگا۔ یو ں جب تک اس کی ملکیت کا تعین نہیں ہو جاتا یہ بندر گوہر نایاب کی پُشت پر ہی قیام کرتا ہے‘مجھ پر کاٹھی نہیں ڈالتا۔

اگر گوہر نایاب مجھے قائل کرلے کہ یہ میری ذمہ داری ہے تو میں انتہائی سکون سے آگے بڑھ کر اسے اٹھا لیتا ہوں اور اگر یہ اس کی ذمہ داری ثابت ہو جائے تو پھر مجھے پنگا لینے کی زحمت نہیں کرنا پڑتی کیونکہ یہ ذمہ داری میرے پاس ہوتی ہی نہیں۔۔یہ ہوتی ہی اس کے پاس ہے۔

آج کل وہ مشہور جملہ ’’ہمیں ایک مسئلہ درپیش ہے‘‘ہمارے دفتر میں کم ہی سننے کو ملتا ہے۔ ایک دو موقعوں پر میری طرف سے تھوڑی سی سست روی نے مجھے ذمہ داریوں کو ان کے جائز مالکان کے پاس رکھنے کا انتہائی قیمتی سبق سکھایا ہے۔ ہوا یوں کہ میرے عملے میں موجود ایک لڑکی لبنٰی میرے پاس آئی اور کہنے لگی’’جناب مجھے ایک مسئلہ درپیش ہے‘‘ میں نے جواب دیا ’’ایک مسئلہ؟ رخ روشن دیکھو‘ مسئلہ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ‘صرف کو نادر مو قع ہو تا ہے‘‘ اس نے جواب دیا  ’’ایسی صورت میں میرے پاس بیش بہا موقع موجود ہے، ایک زور دار قہقہہ لگانے کے بعد میں نے اس سے پوچھا ’’آخر کیا ماجرا ہے؟‘‘
لبنٰی نے اپنا مسئلہ بیان کیا لیکن اس نے اس مسئلے کا کوئی حل پیش نہ کیا‘ وہ بس خاموشی سے بت بنی کھڑی رہی۔ میرا خیال ہے کہ وہ سوچ رہی تھی کہ میںا سے بتائوںکہ اسے کیا کرنا چاہیے؟ اس وقت پنگے بازی کو نظم و ضبط میں لانے کے علم میں میں اتنا کورا تھا کہ مجھے معلوم ہی نہ تھا کہ میں اسے کیا کہوں یا کیا کروں؟ پس میں وہیں خاموش کھڑا رہا اور سوچتا رہا کہ کیا کروں؟ خاموشی کا یہ دورانیہ طویل ہونے لگا تو مجھے بے چینی محسوس ہونے لگی‘ مجھے معلوم نہیں کہ اس دوران لبنٰی کیا سوچ رہی تھی لیکن آخر کار اسی نے سکوت توڑا اور کہنے لگی ’’کیوں نہ اس مسئلے پر میں خود ہی کچھ مزید غور کر لوں‘ مجھے یقین ہے کہ میں اس کا کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لوں گی۔‘‘

بے چین کر دینے والی خاموشی نے لبنٰی کو اپنا مسئلہ سمجھنے، پہچاننے‘ اپنانے اور تیزی سے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اگرچہ یہ تکنیک میں نے حادثاتی طور پر سیکھی تھی تاہم میں نے اسے انتہائی موثر طور پر کچھ دوسرے موقعوں پر بھی استعمال کیا‘میں نے اس سے ملتے جلتے کچھ اور طریقے اور انداز بھی استعمال کیے ہیں۔ خاموشی کے علاوہ کئی کپ چائے یا کافی پینے پلانے کے بعد مثانے بھر جانے سے بھی وہ بے چینی پیدا ہو سکتی ہے جس سے گھبرا کر کوئی بھی شخص اپنے مسئلے پر جھپٹتا ہے اور دوڑ لگا دیتا ہے یا پھر میٹنگ کو غیر معمولی طوالت دے کر بھی یہی نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ایسے میں مجھے ایک مشہور شخص کی کہانی یاد آ رہی ہے جس نے اپنے ماتحتوں میں سے ایک کی ادھوری تجویزوں پر مبنی اوپر کی طرف لپکنے والے بندروں سے چھٹکارا پایا تھا۔ اس شخص پر قریباً ہر حربہ ناکام ثابت ہوا تھا۔پس مینجر نے اس کا جھٹکا کرنے کا فیصلہ کیا‘ جونہی اگلی مرتبہ اس شخص سے نامکمل تجویز موصول ہوئی اس نے اسی وقت لوٹا دی اور ساتھ ہی ایک پرچی بھی نتھی کردی جس پر لکھا ہوا تھا ’’تم اس سے کہیں بہتر کر سکتے ہو۔ ‘‘ماتحت نے اس تجویز کو بہتر بنایا اور پھر سے بھجوادیا ‘تجویز پھر سے واپس موصول ہوئی اور اس دفعہ بھی اس کے ساتھ ایک پرچی لگی ہوئی تھی جس پر تحریر تھا’’یہ تمہاری بہترین کارکردگی نہیں ہے۔ ایک کوشش اور کرو وہ کہتے ہیں قیصر عباس، شاباش !تم کر سکتے ہو!” ‘‘ایک مرتبہ پھر ماتحت نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا‘ اس دفعہ وہ ذاتی طور پر باس کی خدمت میں حا ضر ہوا اور کہا ’’یہ وہ بہترین معیار ہے جو میں دے سکتا ہوں۔‘‘جس پر اس نے ماتحت کو جواب دیا ’’اچھا !تو اب پھر میں اسے پڑھ لوں گا۔‘‘

یہ سب کچھ تو تھا دوسرے قانون کے بارے میں یعنی ذمہ داریاں ان کے جائز مالکان کو سونپنا‘ اب جب کہ وہ صحیح کندھوں پر پہنچ چکی ہیں توآئیے !طے شدہ اہداف کو تنظیمی گورکھ دھندوں کا سامنا کرنے کے لئے کھلا چھوڑنے سے پہلے ان کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔

پنگوں کو نظم و ضبط میں لانے کا تیسرا قانون کہتا ہے: باس اور ماتحت کے درمیان مکالمہ اس وقت تک اختتام پذیر نہیں ہونا چاہیے جب تک انشورنس کے ذر یعے ہدف کا تحفظ نہ کر لیا جائے۔

یہ قانون آپ کے اسٹاف کو آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنے اہداف کیلئے خود سے فیصلے کریں تاہم آپ کے اطمینان اور اعلیٰ نتائج کو ملحوظِ خاطر رکھنا بھی اُن کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔لوگوں کو کام کرنے کی آزادی دے کر آپ اور وہ دونوں فائدے میں رہتے ہیں‘ آپ کو یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ ان کی نگرانی میں کم وقت اور طاقت خرچ کرنا پڑتی ہے اور آپ کے پاس سوچ و بچار کیلئے بہت سا وقت بچ جا تا ہے۔ دریں اثناء جب آپ کے ماتحت آزادی سے اپنی ذات کو منظم کرتے ہیں تو اس سے انہیں بھی کئی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیںجیسے کہ زیادہ تسلی‘ توانائی‘ جوش و جذبہ زیادہ ہوتا رہتا ہے۔

لیکن ہر فائدے کی کوئی قیمت بھی ہوتی ہے‘ لوگوں کو زیادہ آزادی دینے میں کچھ خطرات بھی پنہاں ہوتے ہیں یعنی جب لوگوں کو زیادہ اختیارات ملتے ہیں تو وہ غلطیاں بھی زیادہ کرتے ہیں۔ اہداف کی انشورنس کا مقصد یہ ہے کہ ماتحت صرف وہی غلطیاں کریں جنہیں برداشت کیا جاسکے‘ یہی وجہ ہے کہ تمام اہداف کو مندرجہ ذیل میں سے کسی ایک انشورنس پالیسی کے تحت تحفظ دیا جانا چایئے:

-تجویز کی منظوری کے بعد عمل کریں
-عمل کرنے کے بعد با خبر کریں

پالیسی 1‘ تجویز کی منظوری کے بعد عمل کریں‘ ایسے موقعوں پر تحفظ مہیا کرتی ہے جہاں ماتحتوں کو شتربے مہار کی طرح چھوڑدینے سے ایسی غلطی کا کافی خدشہ ہوجس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ ایسی صورتوں میں جہاں مجھے احتمال ہو کہ میرے عملے کے افراد لٹیا ہی ڈبو دیں گے تو میں چاہتا ہوں کہ ایسا ہونے سے پہلے ہی اپنے حتمی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے میںمجوزہ اقدام کو مسترد کر دوں۔ایسی بے چینیاں خاص طور پر ان اہم معاملات سے منسلک ہوتی ہیں جنہیں اگر بگڑنے دیا جائے تو میں نااہلی کا مظاہرہ کرنے والے کونکال باہر نہ کر سکوں گا کیونکہ اس سے پہلے خود میری چھٹی ہو چکی ہوگی ۔

ایسے معاملات میں میری خواہش ہوتی ہے کہ میرے عملے کے متعلقہ افراد تجاویز مرتب کریں اور میرے باضابطہ طور پر منظور کرنے کے بعد ہی ان پر عمل پیرا ہوں‘ اس سے ہمیں تحفظ مل جاتا ہے تاہم اس سے میرا وقت خرچ ہوتا ہے اور متعلقہ افراد کی خود مختاری متاثر ہوتی ہے۔

پالیسی 2‘ عمل کرنے کے بعد باخبرکریں‘ ایسے اہداف کے بارے میں ہے جن کے متعلق مجھے یقین ہے کہ میرے ماتحت انہیں کامیابی سے سنبھال سکتے ہیں‘ وہ ان معاملات کو طے کرنے کے لئے مکمل طور پر آزاد ہیں اور کام مکمل کرنے کے بعد وہ جب بھی مناسب سمجھیں مجھے مطلع کر سکتے ہیں‘اس سے انہیں اپنے جوہر دکھانے کے وسیع مواقع ملتے ہیں اور میرا خاصا قیمتی وقت بچ رہتا ہے۔اس میں بہرحال یہ خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں وہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھا لیں جس سے دودھ اُبل کر کیتلی سے باہر آجائے اور مجھے بہت بعد میں اس وقت پتا چلے جب میرے لئے دودھ کو سمیٹنا ممکن نہ ہو اور اگر میں کسی نہ کسی طرح دودھ سمیٹ ہی لوں تو وہ گدلا ، میلا اور نا قابلِ استعمال ہوچکا ہو۔

موقع کی مناسبت سے انشورنس پالیسی کا انتخاب کون کرتا ہے؟ اگرچہ بطور مینجر مجھے ہی حتمی پالیسی کی منظوری دینی چاہیے تاہم کوئی بھی فریق حالات کی مناسبت سے پہل کر سکتا ہے۔ بعض اوقات یہ انتخاب میں کرتا ہوں‘ خاص طور پر جب مجھے پالیسی کے حوالے سے تحفظ درکار ہو۔ جب میں پالیسی ۱ کا انتخاب کرتا ہوں تو کئی دفعہ میرے افراد مجھ سے شاکی رہتے ہیں کیونکہ اس سے ان کی آزادی پرچوٹ پڑتی ہے لیکن جہاں ان کے اپنے طور پر پالیسی ۲پر عمل پیرا رہنے سے یہ خطرہ ہو کہ ناقابلِ تلافی نقصان ہو جائے گا اور میں اعتراض نہ کروں تو یہ بطور باس میری طرف سے ذمہ داریوں سے فرار ہوگا۔

یقینا نہ تو ایسا ممکن ہے اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ میں اپنے افراد کو پیشگی ہر قدم پر پالیسی کے انتخاب پر رہنمائی دوں۔ پس بیشتر مواقع پر وہ خود پالیسی منتخب کرنے کا ذمہ لے لیتے ہیںگو اس میں رسک بھی ہوتا ہے تاہم انہیں اعتماد ہوتا ہے کہ ان کی منتخب کردہ پالیسی آخر کارمجھے مطمئن کر دے گی۔ وہ پالیسی نمبر ۲ پر صرف اس صورت میں عمل پیرا ہوتے ہیں جب انہیں بھروسہ ہوتا ہے کہ اگر وہ اس پر عملدرآمد کے بعد مجھے مطلع کریں گے تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا بصورت دیگر وہ مجھے اپنی سفارشات پیشگی پہنچا دیتے ہیں اور باہمی اتفاق رائے کے بعد طے شدہ کام کر گزرتے ہیں (پالیسی ۱)۔اگر میں ان کی مجوزہ پالیسی سے متفق نہ ہوں تو میں یہ اختیار رکھتا ہوں کہ اسے بدل ڈالوں‘ میرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جس حد تک ممکن ہوانتظامی امُور دوسروں کے ہاتھ میں دیئے جائیں اور جس حد تک ضروری ہوانتظامی امُور اپنے ہاتھ میں رکھے جائیں۔

!پنگا نہیں لینا سر جی

قسط13

ڈاکٹر صداقت علی

اہداف کی انشورنس زبردست کام ہے‘ اس طرح ایک ماتحت اپنے کام کاج میں سے کچھ پالیسی 1 کے تحت اور کچھ پالیسی 2 کے تحت کرتا ہے۔ میں اپنے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ جس حد تک ممکن ہو پالیسی 2 استعمال کریں اور انہیں پابند کرتا ہوں کہ جس قدر ضروری ہو پالیسی 1 پر چلیں۔ جس کام کی انشورنس آج ایک پالیسی کے تحت ہوگی‘ بدلے ہوئے حالات میں اسی کام کے لئے دوسری پالیسی کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے‘ ذیل کی مثالوں میں آپ دیکھیں کہ کس طرح بعض اوقات انشورنس پالیسیاں تبدیل کرنا پڑ جاتی ہیں‘ بعض اوقات ایسا میری رضامندی سے ہوتا ہے اور کئی دفعہ میرے ماتحتوںکی مرضی سے۔

پہلی مثال میرے ایک سابق ملازم اللہ دتہ کی ہے جو میری برداشت سے بڑھ کر من مانیاں کرتا تھا‘ وہ اپنی تمام ذمہ داریوں کو پالیسی 2 کی بنیاد پر پھڑکانے کا عادی تھا اور شاذو نادر ہی مجھے اس بات سے آگاہ کرتا تھا کہ آج کل وہ کیا کر رہا ہے؟ مجھے زیادہ مطلع رکھنے کے بارے میں وہ میری تمام ہدایتیں سنی ان سنی کر چکا تھا۔

کرنا خدا کا یہ ہوا کہ اس کا ایک منصوبہ زبردست مشکل کا شکار ہو گیا‘ میرے کلائنٹ کو اس کے بارے میں مجھ سے بھی پہلے علم ہو گیا اور اس نے مجھے کھری کھری سنادیں۔ میں سیدھا اللہ دتہ کے دفتر میں گیا اور سارا ملبہ اس پر گِرا دیا۔ میں نے اسے بتایا کہ اس کی طرف سے مجھے بے خبر رکھنے سے باس کے آفس میں مجھے کس قدر جھٹکے دئیے ہیں؟ میں آگ بگولہ ہو رہا تھا ’’میں تمہارے سامنے کلپتا رہا ہوں کہ مجھے بھی کچھ بتا دیا کرو لیکن تمہارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی‘ اب میں تمہیں بندہ بنا کر ہی رہوں گا! آئندہ تم اس منصوبے پر مجھ سے پوچھے بغیر کوئی اگلا قدم نہیں اٹھائوگے۔

شاید میں کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو گیا تھا لیکن بہر حال اللہ دتہ ایک اایسی ہستی تھی جس کی الٹی سیدھی حرکتیں ان دنوں میری برداشت سے باہر تھیں۔ میں اسے اختیاراتی پالیسی نمبر 2 سے پالیسی نمبر 1 پر کھینچ لایا تاکہ میری بے قراریوں کو قرار آئے اور میری راتوں کی نیند حرام نہ ہو۔ مرتا کیا نہ کرتا‘ وہ مان گیا لیکن جیسا کہ آپ سب اندازہ لگا سکتے ہیں‘ جونہی میں کچھ ٹھنڈا ہوا اور منصوبے میں پھر سے جان پڑ گئی اس کی بے ڈھنگی چال لوٹ آئی اور وہ بڑے آرام سے واپس پالیسی 2 پر آ گیا۔

یہ تو تھا ایسے بندے کا مسئلہ جو مادر پدر آزادی کا مظاہرہ کر رہا تھا‘ اگلی مثال دوسری انتہا کے متعلق ہے جہاں پر میں نے خود ہی اپنے عملے کی ایک رکن کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ نیک پروین ایک منصوبے کے بارے میںکسی حد تک تشویش کا شکار تھی اور ہر اگلا قدم اٹھانے سے قبل مجھ سے مشورہ کرنا ضروری سمجھتی تھی۔ وہ اپنے ہر کام میں پالیسی 1 پر چلتے ہوئے میرا انگوٹھا لگوانا ضروری سمجھتی تھی‘ دوسری طرف مجھے یقین تھا کہ مجھ سے اس قدر رابطہ رکھے بغیر بھی وہ اس منصوبے کو بخیرو خوبی تکمیل تک پہنچا سکتی ہے۔ پس میں نے اسے اپنے بھرپور اعتماد کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ وہ اس مسئلے کو خود ہی حل کرے اور بعد میں مجھے اپنی کارکردگی سے آگاہ کر دے۔

جب نیک پروین میرے دفتر سے چلی گئی تو مجھے کچھ تشویش ہوئی اور میں نے سوچ ’’اگر وہ اس منصوبے کے بارے میں اتنی پریشان ہے تو پھر شاید مجھے بھی اسے سنجیدگی سے لینا چاہئیے۔‘‘ میں حیران تھا کہ کہیں مجھ سے کوئی زبردست کوتاہی تو نہیں ہو گئی؟ پس میں نے اسے واپس بلایا اور پوچھا کہ اس منصوبے میں زیادہ سے زیادہ کیا گڑبڑ ہو سکتی ہے؟ خدانخواستہ ایسا ہونے کے امکانات کس قدر ہیں؟ اس کے جواب سے تو سچ مچ مجھے دل کا دورہ پڑ گیا‘ میرے پسینے چھوٹ گئے اور میرے ہاتھ کپکپانے لگے۔

میں ہکا بکا رہ گیا۔ دو سال پہلے کی بات ہوتی ہے تو اپنے خدشات کی بناء پر میں پنگا لے چکا ہوتا، میںنیک پروین سے ذمہ داری واپس لے کر سینے سے لگا کر بھینچ لیتا اور پھر خجل خواری کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہ ہوتا‘ تاہم اب میں نے یہ کیا کہ منصوبے کی ازسر نو انشورنس کی اور پالیسی 2 سے پالیسی ۱ پر لے آیا‘ میں نے نیک پروین سے کہا کہ’’اگر تمہیں تشویش ہو تو پلیز عملی جامہ پہنانے سے پہلے اپنے ہر قدم پر مجھے پھر سے اعتماد میں لینا۔‘‘ پھر میں واپس اپنے اپنی کرسی میں دھنس گیا‘ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میری جان ہی نکل گئی ہو تاہم سَر سے بوجھ اُتر گیا کیونکہ میں نے صورتِ حال کو بروقت سنبھال لیا تھا۔

بعدازاں جب منصوبہ تکمیل کے مراحل بخیرو خوبی طے کر رہا تھا اور میرا نیک پروین سے باہمی تال میل اچھا چل رہا تھا تو اپنی سمجھ بوجھ پر اعتماد کرتے ہوئے نیک پروین خود ہی اس منصوبے کے بیشتر حصوں کو اپنی مرضی سے پالیسی 2 پر لے گئی۔ جیسا کہ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ یہ منصوبہ زیادہ اہمیت اختیار کر گیا۔ میری ایک کلائنٹ محترمہ عدالت عالیہ بھی اس منصوبے پر کڑی نگاہ ڈالی۔ محترمہ عدالت عالیہ کی صاحبزادی حساس نوعیت کے مسائل کا شکار تھی اور ہماری کونسلنگ میں تھی۔ ایک دن انہوں نے ملاقات کے آغاز میں ہی مجھے پوچھا ’’بیٹی کی کونسلنگ میںپیشرفت کیسی ہے؟

میں نے اسے بتایا، “کہ میں اس منصوبے کے بیشتر حصے پالیسی 2 کے مطابق نیک پروین کو طے کرنے کا موقع دے رہا ہوں کیونکہ اس نے اپنی اہلیت ثابت کر دی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہ پھلے پھولے اور اس میں نکھار آ جائے۔ اگر آپ اُن سے بات کر لیں تو زیادہ مناسب ہو گا۔

وہ کہنے لگیں ’’یہ جس طرح کا حساس معاملہ ہے اس کی مناسبت سے میں چاہتی ہوں کے چلبلی کی کونسلنگ کو براہ راست اپنے ہاتھ میں رکھیں۔‘‘جب میں نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے مجھے ایک گُر کی ایسی بات بتائی جو لوگوں کو آزادی حاصل کرنے کی خواہش اور کلائنٹس کے تحفظ کے درمیان توازن قائم کرتی ہے وہ کہنے لگیں‘’’آپ کے ارادے قابل تعریف ہیں‘‘ وہ کہنے لگیں ’’چلبلی کا یہ معاملہ انتہائی حساس نوعیت کا ہے‘ اپنے لوگوں کی نشوونما کے مواقع آپ کو پھر بھی ملتے رہیں گے‘‘ انہوں نےمجھے کہا ’’محض زبردست انتظام کا مظاہرہ کرنے کے جنون میںمیرے مفادات کو داؤ پر لگائیں گے تو میری راتوں کی نیند حرام ہو جائے گی “چلبلی ہاتھ دھو کر اپنی جان کے پیچھے پڑی ہے۔ اگر اُس نے خودکشی کا قدم اُٹھا لیا تو آپ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

کسی بھی ادارے کا کل منافع اس کے ہزاروں اقدام کا نتیجہ ہوتا ہے‘ جس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی بھی کمپنی کی کامیابی کا انحصار انہی اقدامات کو صحیح اور درست طریقے سے اُٹھا نے پر ہے۔ چونکہ اقدامات کی صحت انتہائی اہم ہے اس لئے وقتاً فوقتاً ان کا معائنہ لازم ہے تاکہ یہ درست اور معیاری انداز میں پایا تکمیل کو پہنچیں‘ پنگے بازی کا قلع قمع کرنے کے لئے قانون 4 اسی لئے وضع کیا گیا ہے۔

پنگے بازی کا قلع قمع کا قانون 4 کہتا ہے: باس اور ماتحت کے درمیان اس وقت تک مکالمہ ختم نہیں ہونا چاہیے جب تک کسی منصوبے کے آئندہ معائینے کی تاریخ نہ طے کر لی جائے۔

چونکہ لوگ کئی مرتبہ غیر متوقع طور پر پنگے لینا شروع کر دیتے ہیں لہٰذا منصوبوں کی صحت و تندرستی کو خطرہ لا حق ہو جاتا ہے اس لئے طبی معائینے انتہائی ضروری ہیں۔ سمجھ دار لوگ خواہ وہ کتنے ہی صحت مند کیوں نہ ہوں باقاعدہ وقفوں سے اپنا طبی معائنہ کراتے رہتے ہیں تاکہ صحت سے متعلق مسائل کو بروقت پکڑا جا سکے اور پھر ان سے نپٹا جاسکے‘ یہی قاعدہ منصوبوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر معائینے کے دوران مسائل کی نشاندہی ہو جائے تو پھر علاج تجویز کیا جاتا ہے تاہم اگر معائینے کے دوران ثابت ہو جائے کہ منصوبے کی صحت اچھی ہے تو منصوبے کے مالک کے لئے خوشخبری بن جاتی ہے۔ پس کسی منصوبے کے معائینے کے دو مقاصد ہوتے ہیں ایک یہ کہ لوگوں کو کوئی صحیح کام کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا جائے اور ان کی تعریف کی جائے‘ دوسرے مسائل کی بروقت نشاندہی ہو جائے اور قبل اس کے کہ مسائل بحرانوں کی شکل اختیار کریں ان کے بارے میں اصلاح کی کوئی راہ نکالی جائے۔ مسائل دریافت کرنے اور بروقت حل کرنے کے چار فائدے ہیں۔

باس کی طبیعت ٹھنڈی رہتی ہے۔ –
تربیت کے ذریعے لوگوں کی اہلیت بڑھتی ہے۔ –
تربیت سے باس کو یقین ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے ماتحت پر تکیہ کر سکتا ہے۔ –
حتمی طور پر باس کو اس بات سے سکون ملتا ہے۔ –

آج کل دستور یہ ہے کہ میرے دفتر سے کوئی منصوبہ اپنے مالک کی پیٹھ پر سوار اس وقت تک باہر نہیں نکلتا جب تک کہ اس کے معائینے کی تاریخ کا تعین نہ کر لیا جائے۔ میں مربوط معائنوں کی تعداد کم سے کم رکھنا چاہتا ہوں اس لئے کہ اگر اس دوران منصوبے کو فوری توجہ کی ضرورت نہیں تو زیادہ سے زیادہ دیر بعد معائینے کی تاریخ پر اتفاق کر لیا جاتا ہے۔ تاہم میرے عملے کے افراد یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اس اثناء میں اگر کوئی ایسا بحران پیش آجائے‘ انہیں یامجھے منصوبے کی صحت کے بارے میں تشویش لاحق ہو جائے تو پھر ہم میں سے کوئی بھی منصوبے کے معائینے کی تاریخ کو آگے پیچھے کر سکتا ہے۔

اب ہم ’’پنگے بازی‘‘ کی ایک ایسی مثال دیکھیں گے جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ کبھی کبھار منصوبوں کے معائینے کا نئے سرے سے تعین کیوں ضروری ہے؟ بعض اوقات جب میں اپنے ادارے میں اس نیت سے گھوم پھر رہا ہوتا ہوں کہ کچھ معلومات حاصل کر سکوں اور لوگوں کو یہ بھی معلوم ہو جائے کہ میں ان میں دلچسپی رکھتا ہوں تو ایسے میں میری نظر کسی بیمار دکھائی دینے والے “بندر” پر بھی پڑ جاتی ہےجو کسی ماتحت کی گود سے باہر گرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ عام طور پر توجہ کی کمی‘ انفرادی لاپرواہی یا اجتماعی بے حسی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ شاذ و نادر ہی اس منصوبے کا مسئلہ سستی‘ کم عقلی‘ بدنیتی یا پھر اس نوع کی کوئی اور بات ہوتی ہے اکثر وہ منصوبہ اس وجہ سے بیمار ہو تا ہے کہ میرے ماتحت دیگر تمام مصروف لوگوں کی طرح اپنی ترجیحات تشکیل دیتے ہیں اور ایسے میں وہ منصوبے جو فہرست کے آخر میں ہوتے ہیں بعض اوقات مشکلات سے دوچار ہو جاتے ہیں اور عام طور پر انہوں نے مجھے منصوبے کے بارے میں اس لئے آگاہ نہیں کیا ہوتا کیونکہ میرے بیشتر ماتحت اب اپنے مسائل میرے پاس لانے کی بجائے خود ہی حل کرنا چاہتے ہیں جو بذات خود درد سر بن سکتا ہے۔

مثال کے طور پر اکبر میرے عملے کا ایک انتہائی محنتی اور ذہین شخص ہے‘ وہ اتنا پُراعتماد ہے کہ میرے بغیر ہی کسی بیمار منصوبے کی صحت یابی تک اس کی زبردست تیمارداری کرتا ہے۔

اس طرح کی خود اعتمادی قابلِ تعریف ہے بشرطیکہ یہ اپنی آخری حدوں کو نہ چھونے مگر اکبر آخری حدوں کو چھونے لگتا ہے۔ جب تک کسی “غریب” منصوبے کی جان کو شدید خطرہ لاحق نہ ہو جائے وہ مجھے اتنا بھی نہیں بتاتا کہ منصوبے کے “پیٹ میں مٹرور اُٹھ رہے ہیں ہے چہ جائیکہ وہ مجھ سے مدد طلب کرے‘ پھر میرا دفتر ایک ایمر جنسی روم کا منظر پیش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ایسے میں مجھے تمام کام چھوڑ چھاڑ کر اس بحران سے نپٹنا پڑتا ہے۔ با الفاظ دیگر ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے جیسے اپنڈکس نکالتے ہوئے پھٹ گئی ہو اور کیس پیچیدہ ہو گیا ہو۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ مجھے اس بارے میں بروقت مطلع نہیں کیا گیا ہوتا۔ شروع شروع میں جب مجھے یہ مسائل حل کرنے کا زیادہ تجربہ نہیں تھا تو اس قسم کا مسئلہ پیدا ہونے پر میں اکبر سے ناراضی کا اظہار کرتا‘ اسے منصوبے کی صحت کے بارے ایک طویل لیکچر دیتا اور اسے باور کراتا کہ کس طرح اس نے الٹی سیدھی حرکتوں سے صورت حال کو ابتر بنا ڈالا ہے لیکن اب میں نے دو ایسے طریقے سیکھ لئے ہیں جن کی مدد سے میں بیک وقت نہ صرف بحرانوں سے نمٹ سکتا ہوں بلکہ منصوبوں کے بارے میں اپنی تشویش بھی ظاہر کر سکتا ہوں۔

ایک طریقہ تو یہ ہے کہ میں اپنے عملے سے ایسا تال میل پیدا کرتا ہوں کہ جہاں تک ممکن وہ احسن طریقے سے اپنے بندمنصوبوںکی بیماریوں سے خود ہی نمٹ لیں تاہم اگر صورت حال جوں کی توں رہتی ہے یا خطرناک ہونے لگتی ہے اور علاج کے باوجود کسی بہتری کے آثار پیدا نہیں ہوتے تو پھر زندگی کی علامات ختم ہونے سے پہلے ہی منصوبے کو معائینے کے لئے دفتر میں لایا جائے تاکہ میں بھی اس کے علاج میں شریک ہو سکوں۔

!پنگا نہیں لینا سر جی

قسط14

ڈاکٹر صداقت علی

دوسرے لفظوں میں اگر اکبر کی طرح کا کوئی شخص بندر کی تیمار داری نہیں کر سکتا یا اس بات کا ذرا سا بھی امکان موجود ہو کہ اگر اگلے معائینے سے قبل کہیں یہ معصوم جان اللہ کو پیاری نہ ہو جائے تو یہ اکبر کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ قبل از وقت احتیاطی معائینے کا بندوبست کرے۔
دوسری طرف اگر میں مرض دریافت کرتا ہوں تو اس سے نپٹنے کے لئے معائینے کا وقت بندر کی حالت کے مطابق طے کروں گا‘مثال کے طور پراگر اس سے قبل بیمار بندر نے پہلے سے طے شُدہ طریقہ کار کے مطابق تین ہفتے بعد معائینے کیلئے میرے دفتر آنا تھا اور میں اسے ۲۴ گھنٹے بعد طلب کر لیتا ہوں تو اس سے یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ مجھے بندر کی کس قدر فکر ہے؟
اس طرح کی ایک دلچسپ مثال اس وقت سامنے آتی ہے جب جو کچھ کیا جانے چاہیے نہیں کیا جاتا‘مالک کی لاپرواہی سے بندر کی جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور منصوبہ ڈوبنے لگتا ہے۔ایسی صورت میں میں معائینے سے پہلے سے پہلے اسے مزید وقت دیا جائے تاکہ وہ بندر پر کچھ محنت کر سکے۔کچھ لوگ اس کی تشریح اس طرح سے کرتے ہیں: چونکہ اس سلسلے میں کچھ ہواہی نہیں ہوتا سو معائینے کے دوران کوئی بحث طلب نکتہ ہی نہیں ہوتا‘تاہم جو کچھ نہیں کیا گیا اس مضمرات کو تو زیرِ بحث لایا جا سکتا ہے۔
مزید برآں اگر میں کچھ نہ کرنے والے لوگوں کو زیادہ وقت دوں تو اس طرح ان میں کچھ نہ کرنے کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ظاہر ہے کہ جس چیز کی میں حوصلہ افزائی کروں گا وہی مجھے بار بار ملے گی۔اگر میں کام مکمل ہونے تک معائینے کی تاریخیں ملتوی کرتا رہوں گا تو اس اثناء میںہو سکتا ہے کہ بندر کی حالت پتلی ہو جائے یا وہ فاقوں مر جائے۔
پس میرا ردِعمل یہ ہوتا ہے کہ ہم بہرحال معائنہ تو ضرور کریں گے اور اس دوران وہی کچھ زیر بحث لائیں گے جو کچھ اب تک نہیں ہوا‘ اس صورت حال میں متعلقہ شخص کو دو تلخ حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے: اول ‘وہ کچھ نہ کرنا جاری رکھے اور اگلے روز وہ میرے دفتر آ کر مجھے بتائے کہ ’’کوئی پیش رفت کیوں نہیں ہوئی؟‘‘ دوم ‘ وہ کچھ نہ کچھ کرے اور مجھے اپنی کارکردگی دکھادے‘نتیجہ ظاہر ہے: میرے عملے کا متعلقہ شخص ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے اور بندر میں معجزانہ تبدیلیاں وقوع پذیر ہونے لگتی ہیں۔مندرجہ بالا صورت حال میں بیان کی گئی تبدیلیاں ابتداء میں بظاہر سطحی دکھائی دیں گی لیکن ذرا سوچیں کہ اس شخص نے اس اثناء میں مستقبل میں اسی قسم کے مسائل حل کرنے کے بارے میں کیا کچھ سیکھا ہے؟ بہرحال میرا محض یہ دریافت کرلینا کہ کہیں کوئی بندر بیمار ہے جس کے معائینے کی ضرورت ہے‘بذات خود ایک غیر ضروری بندر ہے۔
مندرجہ بالا مثال صرف بیمار بندروں پر ہی لاگوہوتی ہے‘اس سے بالُکل الٹ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب بندر صحت مند اور پھر تیلا ہوتا ہے لیکن اپنی فطرت کے اعتبار سے اس قسم کا بندر ثابت نہیں ہوتاجیسا کہ اس کی پیدائش کے وقت تصور کیا گیا تھا۔مثال کے طور پر زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ میں اپنے عملے کے ایک شخص بنیامین سے کسی منصوبے پر گفتگو کر رہا تھا۔ہم نے اس منصوبے کے ڈیزائن بجٹ اور وقت پر عمومی پہلوئوں سے تبادلہ خیالات کیا ‘مجھے یقین تھا کہ ہم میں منصوبے کی تکمیل کے حوالے سے ذہنی ہم آہنگی پیدا ہو گئی ہے‘ پس میں نے اس منصوبے کا بیشتر حصہ اس کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔
لیکن اگلی مرتبہ جب میں نے اس منصوبے پر نظر ڈالی تو اس کا ڈیزائن مکمل طور پر پٹڑی سے اتر چکا تھا اور اس منصوبے پر اٹھنے والے اخراجات چھت پھاڑ کر آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔یہ سب کچھ میرے لئے قابلِ قبول نہ تھا۔اس طرح کے مسئلے کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں : غلط فہمیاں‘بدلتے حالات‘بنیامین کا عقیدہ کہ نیا ڈیزائن سابقہ ڈیزائن سے بدر جہاں بہتر ہے وغیرہ وغیرہ۔وقفے وقفے سے معائینے ابتداء سے ہی اس قسم کے مسائل کی نشاندہی کر دیتے ہیں اور نہ صرف ممکنہ نقصان میں کمی کا باعث بنتے ہیں بلکہ مینجر کو موقع دیتے ہیں کہ مسئلے کو پہچان کر درست کیا جائے۔
اب معائنوں کے وقت طے کرنے کے بارے میں آخری نکتہ : میں بندروں کے معائنوں کے بارے میں انتہائی حیل و حجت کا مظاہرہ کیا کرتا تھا کیونکہ میرے لئے بندروں کے معائینے میں تمیز کرنا دشوار تھا۔میرا خیال تھا کہ معائنہ ایک طرح سے ما تحتوں کی زندگی میں تانک جھانک کے مترادف ہے۔میرا عقیدہ تھا کہ لوگ اس وقت تک اعلٰی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کریں گے جب تک کہ میں ان کے کان نہ مروڑوں گا۔تاہم اس کے بعد سے لے کر آج تک میں یہ بات اچھی طرح سمجھ چکا ہوں کے معائنوں کا مقصد انسانوں کے بجائے بندروں کی صحت کا جائزہ لینا ہے۔پس معائینے میری اس سلسلے میں راہنمائی کرتے ہیں کہ میں لوگوں کو صحیح کام کرتے پکڑوں‘بندروں کے مسائل بروقت جانچ لوں اور ان کا علاج کر سکوں‘اپنے لوگوںکی راہنمائی کر سکوںاور اعصابی تنائو سے بچوں وغیرہ وغیرہ۔اس کے بعد میرے عملے کے افراد اپنی کارکردگی کی خود ہی فکر کر لیتے ہیں(بندروں کی مناسب دیکھ بھال کا نتیجہ لوگوں کی کم سے کم نگرانی کی صورت میں نکلتا ہے۔)
چونکہ بندروں کا معائنہ ان کی بقاء کے لئے ضروری ہے اس لئے لازم ہے کہ باس اور ماتحت دونوں انتہائی اہم جان کر یہ فریضہ انجام دیں۔یہ تو طے ہے کہ اگر باس اسے اہمیت دے گا تو ماتحت خود بخود ایسا ہی کریں گے ۔پس میں بندروں کے معائینے کا وقت طے کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے جو بھی کرنا ہو کر گزرتا ہوں‘مثال کے طور پر جب ہم کسی معائینے کی تاریخ پر اتفاق کر لیتے ہیں تو میں فوری طور پر اسے اپنے کیلنڈر پر لکھ لیتا ہوں‘تاریخ کو لکھ لینے سے بولنے کی نسبت اس کی اہمیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔اگر میں طے شدہ وقت پر نہیں پہنچ سکتا تو پھر ہر ممکن کوشش کرتا ہوں کہ اس کی پیشگی اطلاع متعلقہ افراد کو کر دوں‘اس سے نہ صرف معائینے کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے بلکہ لوگوں کو یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ میں پابندی وقت کی کتنی قدر کرتا ہوں۔
یہ محض ایک اشارہ ہوتا ہے کہ کونسی باتیں میں مناسب خیال کرتا ہوں اور اس میں مخفی پیغام یہ بھی ہوتا ہے کہ کونسی باتیں میں نامناسب خیال کرتا ہوں۔لوگوں کو ان دونوں باتوں کا پتا ہونا چاہئے۔پس اگرمثال کے طور پر میرے ماتحتوں میں سے کوئی طے شُدہ وقت سے لیٹ یا غیر حاضر ہو گیا ہے اور وہ مجھے اس کی پیشگی اطلاع دے سکتا تھا لیکن ایسا کرنے سے قاصر رہا ہے تو ایسے میںمیں ہنگامہ کھڑا کر دیتا ہوں۔ میں اس سلسلے میں ایک چھوٹی سی تقریر بھی کر ڈالتا ہوں کہ اگر آئندہ وہ طے شُدہ وقت پر نہ پہنچے گا تو پھر ہسپتال سے آنے والے فون کو بھی خوش آمدید کہا جائے گا لیکن اب مجھے شاذونادر ہی اپنے افراد کے سامنے اس قسم کی تقریر کرنی پڑتی ہے۔
:بندروں کو نظم و ضبط میں لانے والے قوانین کا خلاصہ
 
قانون1: بندر کا تعارف کرائیں: مکالمہ اس وقت تک ختم نہیں ہونا چاہیئے جب تک کہ اگلے اقدام پہچان کر طے نہ کر لئے جائیں۔
قانون 2: بندر کی ملکیت طے کر لیں : تمام بندروں سے جہاں تک ہو سکے ادارے کی نچلی سطح پر نپٹا جانا چاہئیے‘تاہم بندروں کی فلاح کو مقدم جانیں۔
قانون 3: بندر کی انشورنس کروائیں: ہر وہ بندر جو آپ کی موجودگی میں آپ کے کسی ماتحت کے کندھوں پر سوار کمرے سے باہر نکلے اسے مندرجہ ذیل دو انشورنس پالیسیوں میں سے کسی ایک کے تحت تحفظ ضروردیں۔
. تجویز کی منظوری کے بعد عمل کریں
2.عمل کرنے کے بعد باخبر کریں
قانون 4: بندر کا معائینہ کرتے رہیں: مسلسل معائینے کا مطلب ہے صحت مند بندر‘ہر بندر کی معائینے کی تاریخ پیشگی طے کر لی جانی چاہئے۔
ایک وقت تھا جب وہ اپنے ماتحتوں کے بندر پکڑ لیا کرتا تھا اور ایک یہ وقت تھا ہے کہ میں یہ تمام بندر اپنے ماتحتوں کے حوالے کر چکا ہوں۔آپ یہ بھی جان چکے ہیں کہ میں نے بندروں کو نظم و ضبط میں لانے کے چار قوانین کس طرح استعمال کئے ہیں؟
آئیے اب میں آپ کو بتائوں کہ میں ترقی کرتے کرتے کس طرح تنظیمی امور کی آخری حدوں کو چُھونے لگاہوں ؟ اب ہوتایوں ہے کہ میں کام اپنے ماتحتوں کو سونپ دیتا ہوں اور وہ مجھے زحمت دیئے بغیر ہی زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کر رہے ہیں ۔اپنے عملے کے افراد کو ان کےبندر پکڑانا‘خود ان کے بندروں کو سنبھالنے سے میلوں آگے ہے جبکہ پورا منصوبہ ہی انہیں تفویض کر دینا تو اس سے کئی نوری سال آگے ہے۔کسی کو کام تفویض کرنے اور اس میں کامیابی حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تفویض کرنے میںاور ذ مہ د اری سونپنے میں فرق کو سمجھا جائے۔اگرچہ بیشتر لوگ ان دونوں الفاظ کو ایک دوسرے کا نعم البدل سمجھتے ہیں لیکن ایک مشہور مزاح نگارکے بقول ہم معنی الفاظ استعمال میں اتنے مختلف ہو سکتے ہیں جتنی کہ بجلی کی روشنی جگنو کی روشنی سے۔اور یہ وہ آنکھیں کھول دینے والا فرق تھا جو میں نے ’’تنظیمی وقت کی تنظیم ‘‘ کے سیمینار میں سیکھا :
ذمہ داری سونپنے کا مطلب ہے کہ کسی کو ایک بندر دینا اور تفویض کرنے کا مطلب ہے کہ بندروں کا ایک پورا کنبہ کسی کے سپرد کرنا جب میں ایک بندر اپنے عملے کے کسی شخص کے حوالے کرتا تھا تو ’’سپردگی‘‘کا بیشتر کام میں خود ہی کرتا تھا۔میں بندر کا تعارف کراتا‘اس کے لئے ایک مالک مقرر کرتا ‘اس کی انشورنس کرتا اور وقتاً فوقتاً اس کے معائینے کے اوقات بھی طے کرتا ۔دوسرے لفظوں میں میں بندر دوسروں کے سپرد کرتا اور میرے عملے کے افراد ان پر کام کرتے ۔
تاہم اب ہم آگے بڑھ کر تفویضیت کے مرحلے میں آ گئے ہیں ‘ اس مرحلے میں میرے عملے کے افراد نہ صرف یہ کہ پہلے کی طرح بندروں پر کام کرتے ہیں بلکہ وہ ان کی سپردگی کا ذمہ بھی لیتے ہیں۔ہر وہ کام جو پہلے وہ اور میں مل کر کیا کرتے تھے اب وہ اسے خود ہی کر لیتے ہیں۔بندروں پر کام کرنے کے علاوہ میرے لوگ انہیں پہنچانتے ہیں‘انہیں اپنی ملکیت میں لیتے ہیں اور ان کی انشورنس و بروقت معائینے بھی خود ہی کرتے ہیں۔وہ خود ہی بندروں کو نظم وضبط میں لانے کے قوانین اپنے بندروں پر لاگو کررہے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں میرے ساتھی اب لمبے عرصوں کے لئے بندروں کے پورے کنبوں یعنی پورے منصوبوں کی نگہداشت کر رہے ہیں اور انہیں اس میںمجھے شامل کرنے کی ضرورت نہ ہونے کے برابر ہی پڑتی ہے۔میری مصروفیت کم ہو کروقفے وقفے سے سارے منصوبے کو مجموعی طور پر دیکھنے تک محدود ہو گئی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ مجھے ایک منصوبے سے تعلق رکھنے والے بے تحاشہ بندروں کے ساتھ مغز ماری نہیںکرنی پڑتی اور صرف منصوبے کا جائزہ لینا ہر بندر کو انفرادی طور پر دیکھنے سے کہیں زیادہ آسان ہے۔
جب تک کہ کوئی ایسا مسئلہ نہ ابھرے جس میں میری مداخلت کی ضرورت ہو معائنوں کے درمیان میرے افراد اپنے منصوبوں کے مکمل طور پر ذمہ دار ہوتے ہیں۔اس طرح وہ خود کو منظم کرنے کے بھی ذمہ دار ہوتے ہیں۔باس کی طرف سے اگلے قدم ملنے اور نظم و ضبط لاگو ہونے کی نسبت یہ چیز ہم سب بہت پسند کرتے ہیں۔
یہ بات مکمل طور پر سمجھنے کے لئے کہ آخر تفویضیت ہی پیشہ ورانہ نظم وضبط کی معراج کیوں ہے‘ آئیے ! ہم مینجمنٹ کی ایک پُرانی تعریف پر نظر دوڑائیں: مینجمنٹ کا مطلب دوسروں سے کام لینا ہے‘ اس تعریف کی رو سے میجمنٹ کا حتمی پیمانہ نتائج ہیں۔عملے کی پیداوار مینجر کی پیداوار کا براہ راست نتیجہ ہوتی ہے۔دوسرے پہلو اگر برابر تصور کیے جائیں تو یہ شرح تناسب جتنی زیادہ ہوگی مینجر اتنا ہی زیادہ مئوثر ہوگا۔
ذرا دیکھیں کہ بات میرے بندر پکڑنے سے بندر پکڑانے تک پہنچی اور پھر نوبت کام تفویض کرنے تک آئی تو شرح تناسب کس تیزی سے بڑھی ؟جب میں سارا کام اپنے ہاتھ سے کر رہا تھا تو میری پیداوار میری محنت کے مساوی تھی یعنی ایک گھنٹے کی محنت ایک گھنٹے کی پیداوار کو ہی جنم دیتی تھی۔میرے شعبے کی پیداوار افسوس ناک حد تک صرف ایک شخص کی ہی محنت پر منحصر تھی__ مجھ پر !
بعدازاں ٹھوکریںکھانے اورکچھ سیکھنے کے بعد میں نے پنگا لینا چھوڑ دیا اور کام دھندے لوگوں کی ملکیت میں دینے شروع کر دیئے ۔ میری محنت اور میری پیداوار کا تناسب بڑھنے لگا۔میرے ہر گھنٹے کے کام کا نتیجہ میرے افراد کے کئی گھنٹوں کے کام کی صورت میں نکلتا۔ میں نے اس اضافہ کو خوش آمدید کہا ‘تاہم شرح تناسب اب بھی بہت معمولی تھی۔میری محنت بہرحال کافی زیادہ تھی (میں ہر انفرادی بندر پر بہت زیادہ وقت خرچ کر رہا تھا)۔میرے شعبے کی کارکردگی محض اس وجہ سے رکی ہوئی تھی کہ میرے عملے کے افراد کو اب بھی مجھ سے ہدایات لینے کے لئے بہت سا وقت صرف کرنا پڑتا تھا اور میں بندروں کی محدود تعداد کے لئے ہی وقت نکال پاتا تھا۔
تاہم اب جبکہ ہم ایک ایسے مرحلے پر آگئے ہیں جسے تفویضیت کہا جاتا ہے میری محنت اور میری پیداوار کی شرح تناسب آسمان کو چھونے لگی ہے۔میں ماضی کی نسبت کئی گناہ زیادہ پیداوار دے رہا ہوں۔ڈرامائی طور پر میری محنت بھی کم ہو چکی ہے۔۔۔۔بجائے اس کے کہ درجنوں بندروں کی ملکیت طے کرنے کا صبر آزما کام میں خود کروں مجھے وقتاً فوقتاً محض تمام منصوبے کا بحیثیت مجموعی جائزہ لینا پڑتا ہے۔میرے شعبے کی پیداوار میں فقیدالمثال اضافے کی دو بڑی وجوہ ہیں: ایک تو یہ کہ میرے افراد کو اب میرے ساتھ پہلے جتنا وقت صرف نہیں کرنا پڑتاکیونکہ میں نے پنگے لینے چھوڑ دیئے ہیں اور دوسرے یہ کہ میرے بندر دینے کی نسبت اپنی ملکیت میں ازخود بندر لینے کی وجہ سے ان کا جذبہ اور تحریک انتہائی بلندیوں کو چھو رہی ہے