!پنگا نہیں لینا سر جی
قسط1
ڈاکٹر صداقت علی
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ دوسروں کے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں تو پھر یہ تحریر آپ کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ ویسے تو یہ ایک ڈاکٹر کی کہانی ہے لیکن اس کا اطلاق روزمرہ زندگی کے دیگر کرداروں، خاص طور پر بزنس مین، مینجرز، والدین اور اساتذہ پر بھی ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ میری پیشہ ورانہ زندگی ناکامی سے دوچار ہو چکی تھی۔ دو قابل انسانوں کے مشوروں سے آج یہ پھر زبردست کامیابی کی طرف رواں دواں ہو چکی ہے۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ یہ اسی کی تفصیل ہے۔ یہاں پر یہ کہانی بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میں عقل اور دانائی کی وہ باتیں آپ تک منتقل کر سکوں۔ میں امید رکھتا ہوں کہ میری طرح یہ آپ کے بھی کام آئیں گی۔ یہ کہانی کوئی 44 برس قبل اس وقت شروع ہوئی جب ایک دوپہر کے کھانے پر میری ملاقات اپنے دوست میاں عزیز سے ہوئی۔ میں دفتر لوٹا، اپنے ڈیسک پر بیٹھا، اپنے سر کو حیرت سے جھٹکادیا اور سوچنے لگا کہ یہ ابھی ابھی کیا ہوا؟ کھانے کے دوران میں اپنے کام کے بارے میں کھل کر بے چینیوں کا اظہارکرتا رہا تھا۔ میاں عزیز مجھے بغور سنتے رہے اور پھر جب انہوں نے مجھے میرے مسائل کی وجہ بتائی تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ اس مسئلے کا حل بھی روز روشن کی طرح عیاں تھا۔ مجھے جس چیز نے سب سے زیادہ حیران کیا وہ یہ تھی کہ مسئلہ میرا اپنا ہی پیدا کردہ تھا۔ شاید اسی وجہ سے میں اسے کسی دوسرے کی مدد کے بغیر سمجھ نہ سکا۔ جب میری آنکھیں کھلیں تو مجھے احساس ہوا کہ میں اس مسئلے میں تنہا نہیں، میرے جاننے والے بہت سے دوسرے ” کامیاب“ لوگوں کو بھی یہی مسئلہ درپیش تھا۔ میں اپنے دفتر میں تنہا بیٹھا خود بخود ہنس دیا۔ ’’پنگا‘‘ خودبخود میرے منہ سے نکلا ’’شاید مجھے کبھی شک نہ پڑتا کہ میرا اصل مسئلہ ”پنگےبازی“ کہلاتا ہے۔ مجھے یاد ہے، ایک طویل عرصے بعد میری نظر اپنی میز پر سجی بیوی بچوں کی تصویر پر پڑی تومیںدفعتاً مسکرادیا۔ میں ان کے ساتھ بھرپوروقت گزارنے کی راہ دیکھ رہا تھا۔
اچانک مجھے ہولی فیملی ہسپتال میں اپنا اولین انتظامی عہدہ یاد آگیا۔ میں بطور رجسٹرار تعینات ہوا تھا۔ یہ عہدہ ’’پنگا بازی” کا بھید کھلنے سے قریباً ایک سال پہلے ملا تھا۔ شروع میں معاملات اچھی طرح چلتے رہے۔ ابتداء میں میں اپنے نئے کام کے بارے میں بے انتہا پرجوش تھا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میرے رویے ماتحتوں پر بھی مثبت اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ جوش و جذبہ اور نتائج جو میرے رجسٹرار بننے سے پہلے زوال پذیر تھے، اب عروج پر تھے؛ تاہم ابتدائی ہلے کے بعد میرے شعبے کی کارکردگی شروع میں آہستہ آہستہ لیکن بعد میں تیزی سے کم ہوتی چلی گئی۔ کارکردگی کے ساتھ ساتھ جوش و جذبہ بھی روبہ زوال تھا، گھنٹوں سخت محنت کے باوجود مجھے اپنے شعبے میں ناکامی کا سامنا تھا۔ میں جھنجھلاہٹ اور بےچینی کا شکار تھا، بظاہر ایسا دکھائی دیتا تھا کہ میں جتنی زیادہ محنت کرتا ہوں میری کارکردگی اتنی ہی کم ہوتی چلی جارہی ہے اور یہی حال میرے شعبے کا تھا۔
میں ہر روز اپنی ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد بھی کام کرتا رہتا، حتٰی کہ ہفتہ اور اتوارکے روز بھی، لیکن اس کے باوجود کام تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا، ہر لمحہ کام کا دبائو بڑھ رہا تھا، مجھے خوف محسوس ہونے لگا کہ ذہنی دباؤ کی وجہ سے السر کی شکایت نہ پیدا ہو جائے یا پھر میں اعصابی طور پر مفلوج ہو کر نہ رہ جائوں۔مجھے یہ بھی محسوس ہونے لگا تھا کہ یہ سب کچھ میرے اور اہل خانہ کے درمیان دوریاں پیدا کر رہا ہے، چونکہ میں گھر میں کبھی کبھار ہی ہوتا تھا اس لئے اہل خانہ کو گھریلو مسائل خود ہی حل کرنا پڑتے اور پھر جب کبھی میں گھر پر ہوتا توعموماً تھکا ہوا ہوتا یا پھر آدھی رات کو بھی میرے اعصاب پر کام سوار ہوتا۔ میرے تینوں بھائی بھی مایوسی کا شکار تھے کیونکہ میرے پاس ان کے ساتھ بات کرنے کا وقت نہیں تھا، آخر میں بھی کیا کرتا؟ میرے پاس کوئی متبادل راستہ بھی نہ تھا، آخرکار مجھے کام بھی تو کرنا تھا- ابتداء میں تو میرے باس ڈاکٹر جمشیر طلاتی مجھ پر اتنی نظر نہ رکھتے تھے لیکن پھر ان کے رویے میں بھی ایک تبدیلی نظر آنے لگی، انہوں نے میری کارکردگی کے بارے میں زیادہ رپورٹیں مانگنا شروع کر دیں، ظاہر ہے انہوں نے معاملات پر کڑی نگاہ رکھنا شروع کر دی تھی۔
بظاہر ڈاکٹر جمشیر طلاتی اس بات پر اطمینان کا اظہار کرتے تھے کہ میں مدد کے لئے ہر وقت ان کے دروازے پر دستک نہیں دیتا لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ میرے شعبے کی کارکردگی کے بارے میں کچھ زیادہ تشویش کا اظہار کرنے لگے کہ میں بہت زیادہ مخبوط الحواس اور مصروف رہنے لگا تھا۔ میں یہ بھی جا نتا تھا کہ زیادہ عرصہ حالات کو جوں کا توں نہیں چھوڑ سکتا اس لئے میں ان سے کھل کر بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے انہیں بتایا ’’یہ بات میرے علم میں ہے کہ کچھ عرصے سے معاملات صحیح نہج پر نہیں چل رہے تاہم میں حالات کو بہتر بنانے کے لئے کوئی جامع حکمت عملی تلاش نہیں کر سکا”، مجھے یاد ہے کہ میں نے انہیں کہا تھا،“ مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ میں دو افراد کا کام کر رہا ہوں“۔ مجھے ان کا جواب آج بھی یاد ہے۔ انہوں نے کہا تھا، مجھے بتائو کہ وہ دوسرا فرد کون ہے، مجھے اسے ملازمت سے فارغ کرنا ہے ۔۔۔۔۔میں ضرورت سے زیادہ عملہ برداشت نہیں کر سکتا۔
پھر انہوں نے مجھے کہا کہ غالباً مجھے کام کے لئے اپنے عملےسے زیادہ رجوع کرنا چاہیے۔ میرا جواب یہ تھا کہ میرا عملہ اضافی ذمہ داریاں اٹھانے کے لئے تیار ہی نہیں ہے۔ ایک مرتبہ پھر انہوں نے ایسا جواب دیا جو میں کبھی فراموش نہ کر پائوں گا، انہوں نے کہا ’’پھر یہ تمہارا فرض ہے کہ تم انہیں اس کے لئے تیار کرو۔ یہ صورت حال مجھے بہت زیادہ اعصابی تنائو میں مبتلا کر رہی ہے، تمہیں پتہ ہے کہ ایک مرتبہ میرے دادا جان نے کہا تھا :‘‘ اگر باس کو ٹینشن ہو تو اس کے ساتھ کام کرنا دشوار ہوتا ہے، خاص طور پر جب آپ ہی باس کو ٹینشن اعصابی میں مبتلاکر رہے ہوں۔